اسٹیبلشمنٹ کو نشانہ بناناپاکستان یا جمہوریت کی خدمت نہیں، خالد مقبول صدیقی ملک کو بدترین بحران سے نکالنے کے لیے اپنے اپنے حصے کی قربانی دینے کی ضرورت ہے، خالد مقبول صدیقی

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک کو بدترین بحران سے نکالنے کے لیے اپنے اپنے حصے کی قربانی دینے کی ضرورت ہے اور اس موقع پر اسٹیبلشمنٹ کو نشانہ بنانا کسی صورت پاکستان یا جمہوریت کی خدمت نہیں ہے۔

کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سربراہ ایم کیو ایم خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ انتخابات ایسی صورتحال میں ہوئے جب پاکستان ہر طرح کے بحران میں پھنسا ہوا تھا، معاشی صورت حال، دہشت گردی کے خطرات منڈلا رہے تھے اور بعض صورتوں میں جن خطرات کی نشان دہی ہورہی تھی اور جو حالات بن رہے تھے اس پر بہت سے لوگوں کو خدشات تھے کہ شاید انتخابات وقت پر نہ ہوسکیں، لیکن اداروں نے ذمہ داری لی اور کسی حد تک پرامن انتخابات ہوگئے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمیں سیاست کے بجائے ریاست کو بچانے کے لیے اپنے اپنے حصے کی قربانی دینی چاہیے، ایم کیو ایم کو مینڈیٹ ملا ہے اور شکرکرنے، جشن منانے اور خوشی منانے کا سارا سامان موجود ہے لیکن ہم پھر بھی پریشان ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ پریشانی پاکستان کی سیاسی قوتوں کی جانب سے ہے، اس مشکل وقت پر جو مشکل فیصلوں کا بھی وقت ہے، یہ سنگین حالات مشکل فیصلوں کے متقاضی ہیں، اپنے اپنے حصے کی قربانی دینے کا واحد راستہ یہی ہے۔

خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ہم اس موقع پر بھی سیاست کرکے حالات کو مزید پیچیدہ کر رہے ہیں، ایک ایسے موقع پر جب پاکستان کو مشکل سے بحران سے بچانے کا وقت ہے اور آس پاس کے پڑوسی ملکوں کی نظریں ہمارے ملک پر ہے اور وہ کسی کمزور لمحے کا انتظار کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس موقع پر اسٹیبلشمنٹ کو نشانہ بنانا کسی طرح سے نہ جمہوریت کی خدمت ہے اور نہ ہی پاکستان کی، پاکستان کے امن، خوش حالی، استحکام اور نہ ہی تحفظ کی خدمت ہے۔

انہوں نے کہا کہ انتخابات میں جو آزاد امیدوار منتخب ہوئے ہیں وہی کسی حد تک نشان دہی کر رہے ہیں کہ انتخابات کسی حد تک آزادانہ تھے اور 2018 سے ہر حالت میں بہتر انتخابات تھے۔

سربراہ ایم کیو ایم پاکستان نے کہا کہ ہمیں صوبائی انتخابات میں 40 سے زائد نشستوں کی توقعات تھی لیکن ہم نے اس پر واویلا نہیں مچایا بلکہ شکر ادا کیا حالانکہ یہ معاملات اٹھائے جاسکتے ہیں اور ایسے امکانات ہیں کہ بڑے زور سے بات کی جاسکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے حصے کا نقصان برداشت اور قبول کرکے یہاں بیٹھ کر بات کر رہے ہیں۔

خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ میں تمام سیاسی جماعتوں اور سیاسی قوتوں سے درخواست کرتا ہوں کہ یہ تحمل اور صبر کے ساتھ ساتھ معاملہ فہمی کا وقت ہے، یہ آگ لگانے کا نہیں آگ بجھانے کا وقت ہے، مسائل پیدا کرنے کا نہیں مسائل حل کرنے کا وقت ہے۔

انہوں نے کہا کہ انتخابات کے بعد بات چیت کے دروازے کھلے ہوئے ہیں، ہم سب کو دعوت دیتے ہیں کہ ہم اپنے درمیان بیٹھ کر طے کر لیں کہ ایک قومی ایجنڈے اور قومی مفاہمتی پیکیج تیار کریں، جس میں میثاق معیشت، میثاق جمہوریت، میثاق سیاست بھی ہو، امن اور خوش حالی کے بارے میں مل کر فیصلہ کریں لیکن جو بیانات سیاسی جماعتوں کے آرہے ہیں اور اس میں جو دھمکی آمیز لہجہ اختیار کیا جا رہا ہے کہ کسی بھی طرح پاکستان کو سنگین ترین اور مشکل ترین حالات میں ہم مل کر دھکیل رہے ہیں، جس سے جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان ہوسکتا ہے۔

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں