بھارتی ریاست میں اسلامی قوانین نے متصادم سول کوڈ منظور، مسلمانوں میں تشویش دوڑ گئی ہندو بھی پریشان، پورے ملک میں نفاذ کا ڈر

بھارتی ریاست اتراکھنڈ میں بدھ کو مذہبی قوانین کی جگہ ایک یونیفارم سول کوڈ (یو سی سی) منظور کیا گیا ہے، جس کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ خواتین کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے، تاہم، ناقدین کو خدشہ ہے کہ اسے ہندو قوم پرست حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) ملک بھر میں نافذ کر سکتی ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی ”اے ایف پی“ کے مطابق اتراکھنڈ میں منظور کردہ یونیفارم سول کوڈ نے متوقع قومی انتخابات سے چند ہفتے قبل منقسم بحث کو جنم دیا ہے۔

اس کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ قانون مسلم خواتین کو ایسے حقوق دیتا ہے جس کے تحت شوہر کی ایک سے زیادہ شادیوں پر پابندی، بیٹوں اور بیٹیوں کے لیے مساوی وراثتی حقوق اور طلاق کا سول کورٹ کے سامنے ضروری ہونا شامل ہے۔

اس قانون کے تحت خواتین کے لیے شادی کی کم از کم عمر 18 سال اور مردوں کے لیے 21 سال مقرر کی گئی ہے، جبکہ ہم جنس پرست تعلقات کا اندراج کروانا لازمی قرار دیا گیا ہے، بصورت دیگر تین ماہ جیل یا جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔

اتراکھنڈ کے وزیر اعلی پشکر سنگھ دھامی نے بل کی منظوری سے قبل کہا تھا کہ اس سے ’غلط طریقوں‘ کا خاتمہ ہوگا اور ’سب کو مساوی حقوق ملیں گے۔‘

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جماعت بی جے پی طویل عرصے سے سب کے لیے یکساں شہری قوانین کے لیے مہم چلا رہی ہے، لیکن اس سے خاص طور پر اقلیتی مسلمانوں کے درمیان پریشانی بڑھ گئی ہے۔

یہ اقدام مودی کی جانب سے ایودھیا میں ایک عظیم الشان مندر کے افتتاح کے ہفتوں بعد سامنے آیا ہے جہاں ہندو انتہا پسندوں نے مغل دور کی ایک مسجد کو منہدم کر دیا تھا۔

ناقدین اسے حکمراں بی جے پی کی جانب سے قومی سطح پر یو سی سی نافذ کرنے کے وعدے کو پورا کرنے کی بنیاد طور پر دیکھتے ہیں۔

اس ریاست میں ایک کروڑ 20 لاکھ آبادی میں سے تقریباً 80 فیصد ہندو ہیں، یہاں کے مقامی رہنما دھامی کا کہنا تھا کہ ’تاریخ بنائی جا رہی ہے، یہ دیگر ریاستوں کے لیے ایک مثال ہوگی۔‘

خیال رہے کہ بھارت کی ایک ارب 40 کروڑ آبادی ایک مشترکہ فوجداری قانون کے تابع ہے، جو برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی میں متعارف کرایا گیا تھا۔

لیکن یہاں شادی، طلاق، گود لینے اور وراثت جیسے ذاتی معاملات کے لیے ایک جیسے قوانین کی بجائے مختلف قوانین پر عمل کیا جاتا ہے۔

مسلم رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یو سی سی طلاق، شادی اور وراثت سے متعلق اسلامی قوانین کے خلاف ہے۔

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے سربراہ اسد الدین اویسی نے بدھ کو سول کوڈ بل کو ہندوستانی آئین میں درج بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ضابطہ مسلمانوں کو مختلف مذہب اور ثقافت کی پیروی کرنے پر مجبور کرتا ہے۔

اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ نے کہا کہ وزیر اعلی پشکر سنگھ دھامی کی طرف سے پیش کردہ مجوزہ بل تمام برادریوں پر لاگو ایک ”ہندو کوڈ“ کے سوا کچھ نہیں ہے۔

بل کی یکسانیت پر سوال اٹھاتے ہوئے اویسی نے کہا کہ اگر کسی قانون کا اطلاق ریاست کی اکثریت پر نہیں ہوتا تو اسے یکساں کیسے کہا جا سکتا ہے؟

انہوں نے کہا کہ شادی، حلالہ اور لیو ان ریلیشنز بات کرنے کا موضوع بن گئے ہیں۔ لیکن کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ ہندو غیر منقسم خاندان کو ضابطے میں کیوں خارج کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’اگر آپ جانشینی اور وراثت کے لیے یکساں قانون چاہتے ہیں تو ہندوؤں کو اس سے کیوں دور رکھا گیا ہے؟‘

انہوں نے مزید کہا کہ اگر قبائلیوں کو ضابطہ اخلاق سے خارج کر دیا جائے تو اسے یکساں نہیں کہا جا سکتا۔

مسلم تنظیم جمیعت علمائے ہند کے رہنما ارشد مدنی کا کہنا ہے کہ ’ہم ایسے کسی بھی قانون کو قبول نہیں کر سکتے جو شریعت کے قانون کے خلاف ہو۔‘

آل انڈیا مسلم ویمن ایسوسی ایشن کی سربراہ عاصمہ زہرہ کا کہنا تھا کہ ’ہم چاہتے ہیں ہمارے شادی کے نظام کو قرآن پاک کے مطابق چلایا جائے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’کم عمری کی شادی کے مسئلے کو سماجی اصلاحات کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے، نہ کہ ہم سے مشورہ کیے بغیر قانون نافذ کرکے۔‘

اسی طرح ایک ساتھ رہنے والے غیر شادہ شدہ جوڑوں کی رجسٹریشن سمیت دیگر شقوں پر بھی اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔

سینیئر وکیل گیتا لوتھرا نے انڈین ایکسپریس اخبار کو بتایا، ’لازمی رجسٹریشن، شادی نہ کرنے کا انتخاب کرنے کی آزادی چھین لیتا ہے۔‘

لوتھرا نے مزید کہا کہ ریاست کو ’اس دائرے میں داخل نہیں ہونا چاہیے کہ شہری اپنی مرضی سے کیا کرتے ہیں۔‘

انڈیا کے مغربی ساحل پر واقع ساحلی ریاست گوا ملک کا واحد حصہ ہے جہاں پہلے سے ہی ایک مشترکہ ضابطہ اخلاق موجود تھا، جب یہ پرتگالی کالونی تھا۔

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں