روس اور چین نے عراق اور شام میں اہداف پر حالیہ فضائی حملوں پر امریکہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے الزا م عائدکیا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ امریکی شہریوں کی نظریں اپنی چار سالہ کارکردگی سے ہٹانے کے لیے مشرق وسطحی میں امن خراب کررہی ہے.
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں واشنگٹن پر علاقائی کشیدگی کے خطرے کو بڑھانے کا الزام لگایا روس کا کہنا ہے کہ حالیہ حملے آئندہ صدارتی انتخابات سے منسلک ہیں‘ یوکرین پرروس کا حملہ دو سالوں سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں تلخ بحث کا موضوع رہا ہے، امریکہ نے عراق اور شام میں ایران سے منسلک اہداف کے خلاف درجنوں حملوں کے بعدروس نے سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کے لیے درخواست کی تھی ‘یہ حملے اردن میں امریکی اڈے پر ڈرون حملے کے بعد کیے گئے جس میں تین فوجی ہلاک ہوئے.
روس کے اقوام متحدہ میں سفیر واسیلی نیبنزیا نے الزام لگایا کہ یہ حملے امریکہ کی جانب سے اپنے شہریوں میں ساکھ بحال کرنے کی کوشش تھی انہوں نے کہا کہ امریکا کی اندورنی سیاست پر اثر انداز ہونے اور صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کی شبیہہ کو مضبوط بنانے کی کوشش کی گئی ہے جو ناقابل برداشت ہے. روسی سفیر نے کہا کہ حلوں میں عام شہریوں سمیت کئی درجن افراد ہلاک ہوئے واشنگٹن کی جانب سے بین الاقوامی قانون مسلسل نظرانداز کیا جارہا ہے انہوں نے امریکہ پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ وہ ایران سمیت مشرق وسطیٰ کی طاقتوں کو علاقائی تنازعہ کی طرف کھینچنا چاہتا ہے.
شام کے سفیر کوسی الدحاک نے کہا کہ دمشق ریاستوں کو امریکی انتخابی مہمات اور اجتماعی سلامتی کے اصولوں کو مجروح کرنے والی ظالمانہ طاقت کی نمائش کے لیے پلیٹ فارم کے طور پر استعمال ہونے کو مسترد کرتا ہے. الجزیرہ انگریزی کے مطابق چین نے بھی ان حملوں کی مذمت کی ہے بیجنگ کے سفیر ژانگ جون نے بڑھتی ہوئی کشیدگی کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا انہوں نے کہا کہ امریکہ کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ یا کسی اور جگہ تنازعات پیدا کرنا نہیں چاہتا لیکن حقیقت میں اس کے بالکل برعکس ہے امریکی فوجی کارروائیاں بلاشبہ اس خطے میں نئی افراتفری کو جنم دے رہی ہیں اور کشیدگی کو اضافہ کر رہی ہیں.
ایران کے سفیر سعید ایرانی نے کہا کہ امریکی حملوں نے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی ہے اور موجودہ علاقائی بحران کی اصل وجہ سے توجہ ہٹانے کی ایک مایوس کوشش کا مظاہرہ کیا ہے انہوں نے کہا کہ غزہ پر اسرائیل کی امریکی حمایت یافتہ جنگ جس میں 27,000 سے زیادہ فلسطینی مارے گئے ہیں. انہوں نے کہا کہ عراق اور شام میں ایران کے اڈوں پر حملے کے دعوے کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کیا جاتا ہے اور اسے امریکی جارحانہ اقدامات سے توجہ ہٹانے کی کوششوں کے طور پر سمجھا جاتا ہے ایرانی سفیر نے کہا کہ خطے میں کشیدگی کی بنیادی وجہ اسرائیل کی جانب سے غاصبانہ جارحیت اور مسلسل نسل کشی اور صیہونی حکومت کی طرف سے کیے جانے والے ہولناک مظالم ہیں، اور غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے میں بے گناہ فلسطینیوں کے خلاف امریکہ کی مکمل حمایت ہے.
ادھرواشنگٹن کا کہنا ہے کہ عراق اور شام میں اس کے حملے ایران کے اسلامی انقلابی گارڈ کور سے منسلک اہداف کو نشانہ بناتے ہیں جس نے خطے میں امریکی اثر و رسوخ کے خلاف مسلح گروہوں کے ذریعے خطے میں اپنی پراکسیاں قائم کررکھی ہیں تاہم تہران نے جواب میں کہاہے کہ عراق، شام، لبنان اور یمن میں افواج آزادانہ طور پر کام کر رہی ہیں تاہم انہیں ایران کی اخلاقی حمایت حاصل ہے جبکہ اردن میں امریکی اڈے پر حملے میں ایران کا کوئی کردار ادا نہیں.
دوسری جانب امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے یمن پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے جہاں ایرانی حمایت یافتہ حوثی تحریک غزہ پر اسرائیل کی جنگ کو روکنے کے لیے عالمی جہاز رانی کے راستوں میں خلل ڈال رہی ہے تاکہ اسرائیل کے حامی ممالک کی فوجی امداد ان تک نہ پہنچ سکے.