جملے کستی آوازیں، جسم کے آر پار ہوتی نظریں’: پاکستان میں خواتین جم ٹرینرز کو درپیش مشکلات

اسلام آباد میں رہنے والی چوبیس سالہ خاتون جم ٹرینر ماہ جبین (فرضی نام) اس دن کو اپنی زندگی کا “سیاہ ترین دن” قرار دیتی ہیں جب انہوں نے ایک لڑکی کو یہ کہتے سنا کہ ”ماہ جبین سے زیادہ دوستی کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ ہم جنس پرست ہے۔‘‘ ماہ جبین بتاتی ہیں کہ یہ واقعہ اسلام آباد کے جی ایٹ سیکٹر میں واقع اس جم کا ہے جہاں وہ خواتین کو ٹریننگ کراتی ہیں۔

اپنے بارے میں اس تبصرے پر اپنا ردعمل یاد کرتے ہوئے انہوں بے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ” یہ سنتے ہی پہلے تو میرا سارا وجود سن ہو گیا۔ پھر خود پر قابو پاتے ہوئے میں نے اس لڑکی سے پوچھا کہ تم یہ کیا اول فول بول رہی ہو، تو اس نے کمال ڈھٹائی سے کہا کہ میں نے خود دیکھا ہے تم ٹریننگ کے وقت لڑکیوں کو کس، کس طرح ہاتھ لگاتی ہو۔

ماہ جبین، جنہوں نے انٹرنیٹ کے ذریعے جم ٹریننگ کی تربیت حاصل کر کہ اپنے شوق کو اپنا پروفیشن بنایا، کہتی ہیں کہ ان پاس جو خواتین ٹریننگ کے لیے آتی ہیں، “ان کا پاسچر(جسمانی پوزیشن) ٹھیک کرانا ہمارا کام ہے۔

مگر افسوس کہ مرد تو مرد خواتین بھی ہمارے کام کو لے کہ بہت منفی رویہ رکھتی ہیں۔”

اسی طرح کے رویوں کا سامنا پاکستان میں کئی اور خاتوں جم ٹرینرز کو بھی ہے۔

اسلام آباد ہی کی ہانیہ ںاصر اس شعبے میں گزشتہ تین سال سے کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جم ٹریننگ کے لیے درکار مخصوص لباس پہننے پر ان کو تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جبکہ “یہ لباس پہننا کام کی وجہ سے میری مجبوری ہے”۔

اس کا حل ہانیہ نے یہ نکالا ہے کہ وہ گھر سے عبایا یا بڑی سی چادر پہن کر نکلتیں ہیں تاکہ “راستے میں لوگوں کی جملے کستی آوازوں اور جسم کے آر پار ہوتی نظروں سے بچا جا سکے۔‘‘

‘جنسی ہراسانی کی وجہ سے نوکری چھوڑ دی’

ہانیہ کی طرح مہوش (فرضی نام) کو بطور جم ٹرینر کام کرتے ہوئے عمومی طور معاشرے کے اس قدر منفی رویے کا سامنا تو نہیں کرنا پڑا، لیکن وہ کہتی ہیں کہ اپنے جم کے مالک کی جانب سے جنسی ہراسانی کا نشانہ بننے کے بعد انہوں یہ کام چھوڑ دیا۔

مہوش نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کے وہ اسلام آباد کے ایف ٹین مرکز میں واقع ایک جم میں بطور جم ٹرینر کام کرتی تھیں، جہاں مرد اور خواتین دونوں ہی آتے ہیں۔ وہاں کام کرنے کے اپنے تجربے کے حوالے سے انہوں نے مزید بتایا کہ اس “جم کا مالک ہی اچھا نہیں تھا اور وہاں موجود جم ٹرینرز کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا۔

وہ ٹریننگ کے نام پر لڑکیوں کے بہت قریب جاتا تھا اور ان کو غلط انداز سے چھوتا تھا۔”

بقول مہوش ایف ٹین سیکٹر میں نسبتاً زیادہ تعلیم تافتہ افراد رہائش پذیر ہیں، اس لیے انہیں اپنے پیشے کے حوالے سے منفی رویوں کا سامنا تو نہیں کرنا پڑا لیکن اس جم کے مالک غلط رویے کی وجہ سے انہوں نے وہ نوکری چھوڑ دی اور اب “کسی نئی جگہ جانے کی ہمت ہی جواب دے گئی ہے”

اس جم میں کام کرنے والی اور خواتین کے بارے میں ان کا کہنا تھا، “وہ لڑکیاں متوسط طبقے سے تھیں اور نوکری ان کی مجبوری تھی کیونکہ وہ اپنے گھر والوں کا معاشی سہارا تھیں۔ اس وجہ سے وہ بہت سی باتیں نظر انداز کر دیتیں تھیں۔”

‘خواتین ٹرینرز کے لیے زمین تنگ’

پاکستان میں خواتین ٹرینرز کو در پیش مسائل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے خواتین کے حقوق پر کام کرنے والی ثمر من اللہ نکا کہنا تھا، “یہاں بات صرف مخصوص لباس یا شعبے کی نہیں ہے۔

دراصل ہمارے معاشرے میں جب بھی خواتین اپنی ذات کے لیے کچھ سوچتیں یا کرتی ہیں تو وہ معاشرے کے لیے قابل اعتراض ہو جاتی ہیں۔”

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران انہوں نے مزید کہا، “بچے کی پیدائش کے بعد عورت کا جسم کمزور ہوتا ہے اور اس کو جم جانے اور ورزش کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ وہ اپنا خیال رکھ سکے۔ اس سلسلے میں اس کو ٹرینر کی ضرورت ہوتی ہے لیکن بہت سی خواتین مرد ٹرینرز کے ساتھ ورزش کرنا پسند نہیں کرتیں۔

تب ان کو خواتین ٹرینرز کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔”

بقول ثمر من اللہ، “اگر ہم یوں ہی ان خواتین ٹرینرز کے لیے زمین تنگ کرتے رہے تو کل یہ شعبہ اپنی موت آپ مر جائے گا۔”

وہ کہتی ہیں کہ خواتین کو اس شعبے میں آنا چاہیے اور اپنا لوہا باقی شعبوں کی طرح یہاں بھی منوانا چاہییے، کیونکہ “تب ہی آنے والی نسلوں کو ہم ایک اچھا معاشرہ دے سکیں گے، جہاں خواتین بے دھڑک ہر شعبے میں کام کر سکیں گی۔”

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں