سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے مالیات نے ایک غیر ملکی پرائیویٹ بینک میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے کھاتوں میں گڑبڑ اور دھوکا دہی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیو نے شکایت کی ہے کہ ان کے 41 کروڑ روپے کا پتا نہیں چل رہا۔ یہ معاملہ کراچی کا ہے۔
قائمہ کمیٹی نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) اور دبئی اسلامک بینک کی انتظامیہ سے کہا ہے کہ وہ اس سلسلے میں وسیع البنیاد تحقیقات کریں۔ سلیم مانڈوی والا کی سربراہی میں قائمہ کمیٹی نے نگراں وفاقی حکومت کے حقِ قانون سازی پر بھی سوال اٹھایا ہے اور اگلے سیشن میں قانون اور خزانے کے نگراں وزیروں سے ان کی رائے مانگی ہے۔
شکایات میں کہا گیا ہے کہ نور بینک دبئی سے دبئی اسلامک بینک کراچی میں 2017 کے ٹرانسفر سے متعلق تھی۔ یہ اکاؤنٹ ہولڈرز گزشتہ سال رقوم نکلوانے گئے تو انہیں بتایا گیا کہ وہ تو اپنی رقوم نکلواچکے ہیں۔
شکایات میں اس بات پر افسوس ظاہر کیا گیا تھا کہ دبئی اسلامک بینک اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اس حوالے سے تعاون نہیں کر رہے اور استیٹ بینک نے تو شکایت وصول کرنے سے بھی انکار کیا تھا اور بینک محتسب سے رجوع کرنے کو کہا تھا۔ اس وقت یہ معاملہ ایف آئی اے میں زیر التوا ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر جمیل احمد نے بتایا کہ شکایت کنندگان کے دعوے غیر حقیقی نکلے۔
کمیٹی نے حکومت کی مخالفت کے باوجود اسٹیٹ اونڈ انٹرپرائزز (گورننس اینڈ آپریشنز) (امینڈمنٹ) ایکٹ مجریہ 2023 میں ترامیم بھی منظور کی ہیں۔ ترمیمی بل سینیٹر بہرہ مند تنگی نے پیش کیا تھا جس کا مقصد بورڈز آف ڈائریکٹرز اور سی ای اوز کو کمپنی کے اثاثے سیاسی اور مالیاتی مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے روکنا ہے۔
سینیٹر بہرہ مند تنگی کا کہنا تھا کہ بجلی کے تقسیم کار اداروں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں سیاسی بنیاد پر تقرریاں بھی ہوتی ہیں اور یوں اثاثوں کو سیاسی مقاصد کے لیے بروئے کار لایا جاتا ہے۔ تقسیم کار کمپنیوں کے افسران کے تبادلوں پر بھی اثر انداز ہوا جاتا ہے۔
سیکریٹری مالیاتی عماداللہ بوسال نے بل کی مخالفت کی۔ اس کے باوجود کمپٹی نے بحث و تمحیص کے بعد دو ترامیم کیں۔ ایک ترمیم متعلقہ سی ای او کے لیے درکار اہلیت کو 20 سے گھٹاکر 10 سال کرنے سے متعلق تھی اور دوسری ذاتی مفاد اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے الفاظ کے بجائے ذاتی اور مالیاتی فوائد سے متعلق تھی۔