سعودی عرب سے تعلقات کیلئے اسرائیل کو اب بھاری قیمت چکانی پڑے گی، سی این این تعلقات کو معمول پر لانے میں ‘قطعی دلچسپی’ ہے، سعودی سفیر برائے برطانیہ

امریکی نشریاتی ادارے سی این این کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب سے تعلقات کیلئے اسرائیل کو اب بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ غزہ جنگ کے بعد سعودی عرب اب زیادہ مطالبات منوانے کی کوشش کرسکتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں سعودی عرب کے سفیر نے منگل کے روز بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ تعلقات کو معمول پر لانے میں ”قطعی دلچسپی“ ہے۔ شہزادہ خالد بن بندر کا مزید کہنا تھا کہ ’1982 سے اس میں دلچسپی پائی جاتی ہے‘۔

سی این این کی رپورٹ میں کہنا ہے کہ حماس کی جانب سے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حملے سے چند ہفتے قبل سعودی عرب نے کہا تھا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات معمول پر لانے کے قریب پہنچ رہا ہے۔

تین ماہ سے جاری غزہ جنگ اور 23 ہزار سے زائد فلسطینیوں کی اموات کے باوجود عرب دنیا حیران ہے، کہ سعودی عرب اس بات کا اشارہ دے رہا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات شاید اب بھی ممکن ہے۔

سعودی عرب اور اسرائیل سمیت مشرق وسطیٰ میں شٹل ڈپلومیسی کے ایک اور دورے کے دوران امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ نارملائزیشن مذاکرات جاری ہیں اور ’خطے میں اس کے حصول میں واضح دلچسپی ہے۔‘

اسرائیل روانگی سے قبل بلنکن نے سعودی عرب میں صحافیوں کو بتایا تھا کہ جہاں تک انضمام اور نارملائزیشن کا تعلق ہے تو ہم نے اس بارے میں ہر اسٹاپ پر بات کی ہے، جس میں سعودی عرب بھی شامل ہے۔

امریکی وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ ’میں آپ کو یہ بتا سکتا ہوں، یہاں اس کی پیروی کرنے میں ایک واضح دلچسپی ہے، یہ دلچسپی موجود ہے، یہ حقیقی ہے، اور اس سے تبدیلی آسکتی ہے‘۔

سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات کے حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ تعلقات معمول پر لانے کے بدلے سعودی عرب جس قیمت کا مطالبہ کرے گا وہ غزہ جنگ سے پہلے کے مقابلے میں اب زیادہ ہو گی۔

اس حوالے سے امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے سعودی وزارت خارجہ سے رابطہ کر کے تبصرہ کیا ہے۔

سعودی مصنف اور تجزیہ کار علی شہابی نے سی این این کو بتایا کہ “سعودی حکومت اب بھی اس شرط پر (تعلقات)معمول پر لانے کے لیے تیار ہے کہ اسرائیل دو ریاستی حل کی بنیاد یں بنانے کے لیے زمین پر ٹھوس اقدامات کرے۔ مثال کے طور پر غزہ سے ناکہ بندی کو مکمل طور پر ختم کرنا، غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کو مکمل طور پر بااختیار بنانا، مغربی کنارے کے اہم علاقوں سے دستبرداری وغیرہ۔

شہابی نے کہا کہ یہ اقدامات ٹھوس ہونے چاہئیں نہ کہ کھوکھلے وعدے جن کے بارے میں اسرائیل نارملائزیشن کے بعد بھول سکتا ہے جیسا کہ اس نے (اسرائیل کے ساتھ) نارملائزیشن کرنے والے دیگر ممالک کے ساتھ کیا تھا۔

اگرچہ امریکی وزیر خارجہ بلنکن نے غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ نہیں کیا ، لیکن انہوں نے مزید کہا کہ مشرق وسطی میں اسرائیل کے مزید انضمام کے لئے ضروری ہے کہ ”غزہ میں تنازعہ ختم ہو“ اور ساتھ ہی فلسطینی ریاست کے لئے ”عملی راستہ“ کی راہ ہموار ہو۔

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں