امریکہ اور برطانیہ کے یمن میں ایرانی حمایت یافتہ حوثیوں پر حملے

امریکی حکام نے کہا کہ جمعے کے روز ان حملوں میں حوثیوں کے لوجیسٹک مراکز، فضائی دفاعی نظام اور ہتھیاروں کے ذخیروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ امریکی میڈیا کے مطابق حملوں میں لڑاکا طیاروں اور ٹوما ہاک میزائلوں کا بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق یمن کے کئی شہروں کو بھی فضائی حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

حوثی باغیوں کو ایران کی حمایت حاصل ہے اور ان کا دارالحکومت صنعا سمیت مغربی یمن کے بڑے حصے پر کنٹرول ہے۔ ایجنسی نے بتایا کہ جمعے کو علی الصبح یمن میں ہوائی اڈوں اور فوجی تنصیبات کو بھاری فضائی حملوں کا نشانہ بنایاگیا۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے “لاپرواہ حوثیوں” کے خلاف “متحد” کارروائیوں کی تعریف کی ہے۔

بائیڈن نے کہا کہ یہ حملے بین الاقوامی بحری جہازوں پر حوثیوں کے حملوں کے خلاف “متحدہ اور پرعزم” ردعمل کی نمائندگی کرتے ہیں اور امریکہ عسکریت پسند گروپ کے خلاف “مزید اقدمات کرنے سے دریغ نہیں کرے گا۔

امریکی قیادت والے اتحاد نے بحیرہ احمر کے حملوں پر حوثی باغیوں خبردار کیا

بائیڈن نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ “آج میری ہدایت پر امریکی فوجی دستوں نے برطانیہ کے ساتھ مل کر یمن میں حوثی ملیشیا کی جانب سے استعمال کیے جانے والے متعدد اہداف کے خلاف کامیابی سے حملے کیے تاکہ دنیا کی سب سے اہم آبی گزرگاہوں میں سے ایک میں بحری جہاز آزادانہ سفر کر سکیں۔

حملے کو دیگر ملکوں کی بھی حمایت حاصل

بائیڈن نے بتایا کہ اس کارروائی میں انہیں آسٹریلیا، بحرین، کینیڈا اور ہالینڈ کی حمایت بھی حاصل تھی۔

انہوں نے ان حملوں کو حوثیوں کے حملوں کا “براہ راست ردعمل “قرار دیا، جس میں تاریخ میں پہلی بار اینٹی شپ بیلسٹک میزائل کا استعمال بھی شامل ہے۔

صدر بائیڈن کا مزید کہنا تھا کہ “حوثیوں کے حملوں نے امریکی اہلکاروں، سویلین میرینرز اور ہمارے شراکت داروں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

انہوں نے (عالمی) تجارت اور جہاز رانی کی آزادی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔”

امریکی صدر نے زور دیتے ہوئے کہا کہ “یہ ٹارگیٹیڈ حملے ایک واضح پیغام ہیں کہ واشنگٹن اور اس کے اتحادی اپنے اہلکاروں پر حملوں کو برداشت نہیں کریں گے اور نہ ہی دشمن عناصر کو بحری سفر کی آزادی کو متاثر کرنے کی اجازت دیں گے۔”

بڑھتی کشیدگی کے درمیان ایرانی جنگی جہاز بحیرہ احمر میں داخل

بائیڈن کے بقول،”میں اپنے لوگوں اور بین الاقوامی تجارت کے آزاد بہاؤ کے تحفظ کے لیے مزید اقدامات کی ہدایت کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کروں گا۔

برطانوی وزیر اعظم کا بیان

ایک الگ بیان میں برطانوی وزیراعظم رشی سونک نے بھی حملوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا برطانیہ نے ”حوثی فوجی صلاحیتوں کو کم کرنے اور عالمی جہاز رانی کی حفاظت” کے لیے ”اپنے دفاع میں محدود، ضروری اور متناسب کارروائی” کی ہے۔

ٹین ڈاؤننگ اسٹریٹ سے جاری ایک بیان میں رشی سونک نے مزید کہا، “عالمی برادری کی جانب سے بار بار انتباہات کے باوجود حوثیوں نے بحیرہ احمر میں حملے جاری رکھے ہوئے ہیں، لہٰذا ہم نے امریکہ کے ساتھ اپنے دفاع میں محدود، ضروری اور متناسب کارروائی کی ہے جس سے حوثی ملیشیا کی فوجی صلاحیتوں کو کم کرنے اور عالمی جہاز رانی کے تحفظ میں مدد ملے گی۔

حوثی رہنما کا جوابی کارروائی کا انتباہ

سن 2014 میں یمن میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد سے حوثیوں کا ملک کے بڑے حصے پر کنٹرول ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی بمباری کے جواب میں کارروائی کررہے ہیں۔

حوثی نائب وزیر خارجہ حسین العزی نے حوثیوں کے زیر انتظام المیسرہ ٹی وی کے ذریعہ پوسٹ کیے گئے ایک بیان میں کہا کہ امریکہ اور برطانیہ کو حملوں کی ”بھاری قیمت” ادا کرنا پڑے گی۔

انہوں نے کہا کہ “ہمارے ملک کو امریکی اور برطانوی بحری جہازوں، آبدوزوں اور جنگی طیاروں نے بڑے جارحانہ حملے کا نشانہ بنایا ہے۔”

ان کا کہنا تھا کہ “امریکہ اور برطانیہ کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنے کے لیے تیار رہنا ہوگا اور اس صریح جارحیت کے سنگین نتائج بھگتنے ہوں گے۔”

بحیرہ احمر میں تین بحری جہاز غرقاب، متعدد حوثی باغی ہلاک

حوثی رہنما نے متنبہ کیا کہ ”کسی بھی امریکی حملے کا جواب نہ صرف اس آپریشن کی سطح پر ہو گا جو حال ہی میں 24 سے زیادہ ڈرونز اور کئی میزائلوں کے ساتھ کیا گیا تھا، بلکہ یہ اس سے بڑا ہوگا۔

ادھر سعودی عرب نے یمن میں حوثی ملیشیا کے خلاف امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے کیے گئے فضائی حملوں کے تناظر میں “تحمل سے کام لینے اور تشدد سے بچنے “کی اپیل کی۔

بحیرہ احمر میں حوثیوں کے حملے

حوثی باغیوں نے حالیہ ہفتوں میں حماس کے زیر کنٹرول غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوجی کارروائی کے ردعمل میں بحیرہ احمر میں بین الاقوامی بحری جہازوں پر متعدد حملے کیے ہیں۔

خیال رہے کہ دنیا کی شپنگ ٹریفک کا تقریباً پندرہ فیصد نہر سویز کے راستے ہوتا ہے۔

امریکی فوج نے جمعرات کو کہا کہ حوثی باغیوں نے خلیج عدن میں بین الاقوامی جہاز رانی کے راستوں پر ایک اینٹی شپ بیلسٹک میزائل داغا۔

19 نومبر کے بعد سے حوثی ملیشیا کا یہ 27 واں حملہ تھا۔

امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے حوثیوں کو بحری جہازوں پر حملے بند کرنے کے لیے انتباہات کا ایک سلسلہ جاری کیا ہے۔

تین جنوری کو بارہ ممالک نے اس گروپ کو خبردار کیا تھا کہ اگر انہوں نے حملے بند نہ کیے تو ”نتائج” ہوں گے۔

بدھ کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی ایک قرارداد کی منظوری دی جس میں حوثی باغیوں کے بحیرہ احمر میں بحری جہازوں پر حملوں کو فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں