دبئی ماحولیات کے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے پیش نظر متحدہ عرب امارات کو زیادہ سخت گرمی اور شدید بارشوں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
خلیج کے مؤقر نشریاتی ادارے العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق عالمی موسمیاتی تنظیم (ڈبلیو ایم او) نے مئی میں انتباہ جاری کیا تھا کہ آئندہ پانچ سالوں میں عالمی درجہ حرارت ریکارڈ سطح پر پہنچنے کا امکان ہے جس کی وجہ گرین ہاؤس گیسوں میں اضافہ اور ایل نینو رجحان کی متوقع واپسی ہے۔
واضح رہے کہ یہ آب وہوا کا ایک ایسا نمونہ ہے جو مشرقی بحرالکاہل میں سطح آب کے غیر معمولی درجہ حرارت کو ظاہر کرتا ہے۔ گرین ہاؤس گیسیں گلیشیئرز کے پگھلنے اور سمندر کی سطح میں اضافے کے ساتھ گرم سمندروں کا باعث بھی بن رہی ہیں جس سے موسم مزید شدید ہو جائے گا اور متحدہ عرب امارات ان موسمی اثرات کی لپیٹ میں آئے گا۔
متحدہ عرب امارات کے قومی مرکز برائے موسمیات کے تحت بارش میں اضافے کے پروگرام کے حصے کے طور پر کام کرنے والے یوسف وہبی نے اس ضمن میں بتایا ہے کہ سخت گرمی اور شدید بارشوں سے روز مرہ کی زندگی سب سے زیادہ متاثر ہوگی۔
یاد رہے کہ یوسف وہبی مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے آب و ہوا اور پانی کے پروگرام میں ایک غیرمقیم اسکالر بھی ہیں۔
یورپی یونین کی کوپرنیکس کلائمیٹ چینج سروس کے مطابق جولائی کو تاریخ کا گرم ترین مہینہ قرار دیا گیا تھا جب کہ ناسا کے ایک سائنس دان نے کہا تھا کہ یہ مہینہ ممکنہ طور پر ہزاروں نہیں تو سینکڑوں سالوں میں دنیا کا گرم ترین مہینہ ثابت ہوگا۔
واشنگٹن میں قائم ایم ای آئی میں آب و ہوا اور پانی کے ڈائریکٹر محمد محمود نے میڈیا کو بتایا کہ میرے خیال میں ہم یہ کَہہ سکتے ہیں کہ ہم آب و ہوا کے طرز عمل کی رینج کے لحاظ سے ایک نئے نظام میں تبدیل ہو گئے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ یہ آگے بڑھنے کے لیے معیار نہیں ہے لیکن یقینی طور پراشارہ ہے کہ چیزیں کس طرح آگے بڑھ سکتی ہیں؟
متحدہ عرب امارات میں گذشتہ سال جولائی میں سخت بارشوں اور سیلاب کے باعث 7 افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ ڈاکٹروں نے رواں سال جولائی میں خبردار کیا تھا کہ درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ کی حد سے تجاوز کرنے کے بعد لو لگنے سے متعلق بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ایم ای آئی نے اپنی 2022 کی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں مشرق اوسط اور شمالی افریقہ کے خطے کے لیے سخت تشویش کا سبب ہیں۔
میڈیا رپورٹ کے یمطابق اس سال کے اوائل میں شائع شدہ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ موسمی واقعات، برادریوں، معیشتوں اور بنیادی ڈھانچے پر نمایاں دباؤ ڈال رہے ہیں۔