سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی ابتر صورت حال کے پیش نظر خواتین کو چوبیس گھنٹے کیمپوں میں رہنا پڑتا ہے
اس سال پاکستان میں طویل مون سون سے ہونے والی تیز بارشوں کے باعث ملک کے بیشتر علاقے سیلاب کی لپیٹ میں ہیں جن میں خیبرپختونخوا، بلوچستان، اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب کے کچھ اضلاع شامل ہیں۔
خیبرپختونخوا،سندھ اور بلوچستان کے 90 فیصد لوگ سیلاب سے مکمل یا جزوی طور پر متاثر ہیں، لوگ بے گھر اور بے سروساماں اونچے مقامات اور کہیں کہیں انتظامیہ کے فراہم کردہ خیموں(ٹینٹس) میں بے یارومددگار بیٹھے ہیں، جہاں انہیں کھانے اور پینے کو مل ہی جاتا ہے لیکن خوراک اور پانی کے علاوہ بھی کچھ بنیادی ضروریات ہیں جن کے بغیر زندگی گزارنا ناممکن سا ہوتا ہے اور جن پر کوئی بات نہیں کرتا۔
سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں خواتین کو رفع حاجت سمیت سینیٹیشن کے مسائل درپیش ہیں، دور دور تک کھلا علاقہ اور چاروں جانب پانی بھی کھڑا ہے ایسے میں خواتین جائیں تو جائیں کہاں؟
اس حوالے سے کے پی کے، سندھ اور بلوچستان میں خواتین کے مسائل ایک جیسے ہی ہیں۔
سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی ابتر صورت حال کے پیش نظر خواتین کو چوبیس گھنٹے کیمپوں میں رہنا پڑتا ہے، حمل اور بچے کی پیدائش، ہنگامی حالات یا قدرتی آفات کے ختم ہونے کا انتظار نہیں کرتے۔
دوسری جانب زیادہ تر کیمپوں میں صفائی ستھرائی کے ناقص انتظامات ہیں، ایک خیمے میں کئی افراد رہائش پذیر ہیں ایسے میں ماؤں کو اپنے بچوں کو دودھ پلانے کے لیے جگہ تک میسر نہیں ہے۔
خون کی کمی کا شکار حاملہ خواتین اور دودھ پلانے والی ماؤں کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے۔
ناکافی بیت الخلاء بھی گندگی اور بیماریوں کا گڑھ ہیں،ایسے صورتحال میں سب سے زیادہ خواتین متاثر ہیں۔
کھلے علاقے میں رفع حاجت کے لیے جانا ، پانی میں بیٹھنا اور بے پردگی الگ مسئلہ ہے، مرد رفع حاجت کے لیے دور دراز علاقوں تک چلے جاتے ہیں مگر خواتین کا اس سیلاب میں دور جانا بڑا مسئلہ ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس آفت میں خواتین زیادہ متاثر ہیں،جو لوگ اسکول وغیرہ میں ٹھہرے ہوئے ہیں ان کو تو گندے ہہ سہی بیت الخلاء کی سہولت میسر ہے مگر جو کیمپوں یا ایف سی بند پر بیٹھے ہیں ان کا حال برا ہے، دور دور تک ایسی کوئی سہولت نہیں ہے کہ یہ خواتین پردہ کرتے ہوئے اپنی ضروریات پوری کرلیں۔
ایسے میں صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ خواتین کے لیے چھوٹے چھوٹے عارضی بیت الخلاء قائم کرے، سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں فوری طور پر زچہ و بچہ ڈاکٹر کا بندوبست کیا جائے۔