گوگل کی مالک اور پیرنٹ کمپنی ”الفابیٹ“ کا کہنا ہے کہ وہ اپنے سرچ انجن کے ساتھ ساتھ ڈویلپرز کے لیے ایک چیٹ بوٹ سروس اور مصنوعی ذہانت کا آغاز کرے گا.
گوگل کا یہ اقدام کمپیوٹنگ کی ایک نئی لہر کی قیادت کرنے کی کوشش اور اپنے حریف ”مائیکروسافٹ کارپوریشن“ سے دشمنی کا جواب ہے۔
مائیکروسافٹ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ منگل کو اپنا آرٹیفیشل انٹیلی جنس منظر عام پر لائے گا۔
تواتر سے آتی خبریں اس بات کی عکاسی کر رہی ہیں کہ کس طرح سلیکون ویلی نام نہاد مصنوعی ذہانت میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کی توقع کر رہی ہے، جو کمانڈ پر نثر یا دیگر مواد تخلیق کر سکتی ہے اور وائٹ کالر ورکرز کے وقت کو بچا سکتی ہے۔
مائیکروسافٹ کا اوپن اے آئی چیٹ بوٹ ”چیٹ جی پی ٹی“ جو صارفین کے معلومات کی تلاش کے طریقہ کار کو تبدیل کرسکتا ہے، گوگل کے لیے سب سے بڑا چیلنج رہا ہے۔
ایک بلاگ پوسٹ میں، الفابیٹ کے چیف ایگزیکٹیو سندر پچائی نے کہا کہ ان کی کمپنی ”بارڈ“ کے نام سے ایک مکالماتی اے آئی سروس شروع کر رہی ہے، تاکہ صارفین کے تاثرات کی جانچ کی جا سکے۔ جس کے بعد آنے والے ہفتوں میں اس کی عوامی ریلیز ہوگی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ گوگل اپنے سرچ انجن میں اے آئی خصوصیات شامل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، جو پیچیدہ سوالات کے لیے مواد کو ترتیب دیتا ہے۔
سرچ کے لیے گوگل کی نئی اپ ڈیٹ اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ کمپنی کس طرح اپنی سروس کو تقویت دے رہی ہے، جبکہ مائیکروسافٹ بھی ”بنگ“ کے لیے ایسا ہی کچھ کر رہا ہے، سرچ انجنز میں OpenAI خصوصیات شامل کی جارہی ہیں۔ مائیکروسافٹ نے کہا ہے کہ وہ اپنی تمام مصنوعات میں اے آئی کو شامل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
گوگل اوپن اے آئی ”چیٹ جی پی ٹی“ سے بارڈ کو کیسے الگ کرے گا یہ واضح نہیں۔
سندر پچائی کا کہنا ہے کہ نئی سروس انٹرنیٹ سے معلومات حاصل کرتی ہے، جبکہ ChatGPT کی معلومات 2021 تک اپ ٹو ڈیٹ ہے۔
پچائی نے کہا کہ ”بارڈ دنیا کے علم کی وسعت کو ہماری طاقت، ذہانت اور تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرتا ہے“۔
نئے چیٹ بوٹ کے پیچھے گوگل کی اے آئی LaMDA ہے، جس نے اس مہارت کے ساتھ ٹیکسٹ تیار کیا کہ گزشتہ سال کمپنی کے ایک انجینئر نے اسے حساس قرار دیا۔
تاہم، اس دعوے کو ٹیکنالوجی کی دنیا کے بڑوں اور سائنسدانوں نے بڑے پیمانے پر مسترد کر دیا۔
سروس کے ایک ڈیمو میں، اپنے حریف چیٹ بوٹ کی طرح بارڈ بھی صارفین کو انتباہ دیتا ہے کہ اس کا جواب نامناسب یا غلط ہو سکتا ہے۔
اس کے بعد اس نے خلائی دوربین کی دریافتوں کے بارے میں سوال کے تین جوابات دئیے۔
پچائی نے کہا کہ گوگل LaMDA کے ایک ایسے ورژن پر انحصار کر رہا ہے جس کے لیے کم کمپیوٹنگ پاور کی ضرورت ہوتی ہے، تاکہ یہ زیادہ سے زیادہ صارفین کی خدمت کر سکے اور ان کے تاثرات کو بہتر کر سکے۔