پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے کو سیلاب کے بعد درپیش معاشی مشکلات سے آگاہ کر دیا ہے اور اس کا وفد جلد پاکستان کا دورہ کرے گا وزیراعظم شہباز شریف نے ہفتے کو ایک ٹویٹ میں بتایا کہ گذشتہ روز ان کی فون پر آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر سے بات ہوئی ہے.
انہوں نے بتایا کہ آئی ایم ایف کو پروگرام کی شرائط پوری کرنے کے حکومتی عزم کے بارے میں بتایا ہے کہ میں نے پاکستان کی معاشی مشکلات کی بھی وضاحت کی، خاص طور پر تباہ کن سیلاب کے بعد جس پرآئی ایم ایف کے وفد نے جلد ہی پاکستان کادورہ کرنے کا عندیہ دیا ہے.
اس سے قبل وزیراعظم شہباز شریف نے گذشتہ روز ایک تقریب کے دوران بتایا تھا کہ ان کی عالمی مالیاتی ادارے کی مینیجنگ ڈائریکٹر سے بات ہوئی ہے جس میں ان سے وفد بھیجنے کے لیے کہا ہے شہباز شریف نے کہا کہ میں نے آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر کو بتایا ہے کہ ڈیفالت کا کوئی امکان نہیں ہے تاہم اپنا وفد بھیجیں تاکہ نواں ریویو مکمل ہو سکے.
آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر نے کہا ہے کہ آپ صحیح کہہ رہے ہیں اور ٹیم آئندہ دو، تین روز میں آئے گی پاکستان کئی ماہ سے معاشی بحران کا شکار ہے زرمبادلہ کے ملکی ذخائر کم ہو کر چھ ارب ڈالر سے نیچے آ گئے ہیں جب کہ کرنسی کی قیمت میں ریکارڈ کمی ہوئی اور مہنگائی دہائیوں کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے. واضح رہے کہ پاکستان نے 2019 میں آئی ایم ایف کے ساتھ چھ ارب ڈالر کی فراہمی کا معاہدہ کیا تھا جس میں بعد ازاں سات ارب ڈالر تک توسیع کر دی گئی نویں جائزے جو ستمبر سے زیر التوا ہے، کے بعد نقد رقم کی کمی کے شکار جنوبی ایشیائی ملک کو تقریباً ایک ارب ڈالر کے جاری کیے جائیں گے.
یاد رہے کہ گزشتہ روز برطانوی جریدے ”دی گارڈین “میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں وزیراعظم شہبازشریف نے بتایا تھا کہ جنیوا کانفرنس سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے اور بحالی و تعمیر نو کے ساتھ ساتھ موسمیاتی اعتبار سے پاکستان کو ایک مضبوط ملک بنانے کے ایک طویل اور مشکل سفر کا آغاز ہے. ان کا کہنا تھا کہ اس کے نتائج سے لاکھوں سیلاب متاثرین کو یقین ملے گا کہ انہیں فراموش نہیں کیا گیا، عالمی برادری بحالی اور تعمیر نو کی کوششوں میں مدد کرے گی جنیوا کانفرنس ہماری مشترکہ انسانیت اور سخاوت کے جذبے کی علامت اور ان تمام لوگوں اور ممالک کے لئے امید کا ذریعہ بنے گی جنہیں مستقبل میں قدرتی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے.
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں تباہ کن بارشوں اور سیلاب سے 1,700 افراد کی جانیں گئیں، 33 ملین لوگ متاثر ہوئے جبکہ سندھ اور بلوچستان صوبوں کے بڑے حصے بدستور زیر آب ہیں پاکستان میں غذائی عدم تحفظ کے شکار افراد کی تعداد دوگنی ہو کر 14 ملین ہو گئی ہے، مزید 9 ملین افراد انتہائی غربت کا شکار ہو گئے. انہوں نے کہا کہ سیلاب زدہ علاقے اب مستقل جھیلوں کے ایک بڑے سلسلے کی طرح نظر آتے ہیں، اس پانی کو ایک سال سے کم وقت میں نہیں نکالا جا سکتا جبکہ تشویش یہ ہے کہ ان علاقوں میں جولائی 2023 تک دوبارہ سیلاب آسکتا ہے وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان صرف سیلاب سے ہی نہیں بلکہ بار بار رونما ہونے والی آب و ہوا کی شدتوں سے بھی دوچار ہے، اس سے پہلے 2022 میں ملک ایک ہیٹ ویو کی لپیٹ میں رہا جس سے خشک سالی اور جنگلات میں آتشزدگی کے واقعات بھی رونما ہو چکے ہیں.
شہباز شریف نے کہا کہ پاکستانیوں نے اس تازہ ترین آفت کا مثالی انداز میں مقابلہ کیا پہلے سے ہی شدید معاشی بحران کے باوجود حکومت نے 20 لاکھ سے زیادہ گھرانوں کو 250 ملین ڈالر سے زیادہ کی براہ راست نقد رقم کی منتقلی کے لئے فنڈز کا انتظام کرنے کے لئے کوشش کی مجموعی طور پر ہم اپنے محدود وسائل سے ہنگامی امداد میں تقریباً 1.5 بلین ڈالر جمع کرنے میں کامیاب ہوئے.
انہوں نے کہا کہ ہم عالمی برادری اور پاکستان کے دوستوں کے شکر گزار ہیں جنہوں نے بدترین صورتحال سے بچنے میں ہماری مدد کی جبکہ عالمی ادارہ صحت نے اس صورتحال کو اعلیٰ سطح کی صحت کی ایمرجنسی قرار دیا تھا، لیکن ہم موثر کام کی وجہ سے امراض کو پھیلنے سے روکنے کے ساتھ ساتھ شہروں اور دیہاتوں کے درمیان تباہ شدہ مواصلاتی نیٹ ورک کو بھی بہت جلد بحال کرنے میں کامیاب رہے.
انہوں نے کہا کہ 20 لاکھ سے زیادہ گھر، 14,000 کلومیٹر سڑکیں اور 23,000 سکول اور کلینک تباہ ہو چکے ہیں عالمی بینک اور یورپی یونین کے تعاون سے کیے گئے آفات کے بعد کی ضرورتوں کے تخمینہ سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات 30 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئے ہیں جو کہ پاکستان کی کل جی ڈی پی کے 10ویں حصہ کے برابر ہے انہوں نے کہا کہ پاکستان اکیلااس چیلنج سے نہیں نمٹ سکتا یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور میں 9 جنوری کو جنیوا میں کلائمیٹ ریزیلیئنٹ پاکستان انٹرنیشنل کانفرنس کی مشترکہ میزبانی کر رہے ہیں کانفرنس میں عالمی رہنما، بین الاقوامی اداروں اور انسانی ہمدردی کی تنظیموں کے نمائندے اور پاکستان کے دوست اس کے ساتھ تعااون اور یکجہتی کا اظہار کریں گے .
وزیر اعظم نے کہا کہ ہم سیلاب کے بعد کی تعمیر نو اور بحالی کے لیے ایک جامع روڈ میپ بھی پیش کریں گے، جسے ورلڈ بینک، اقوام متحدہ، ایشیائی ترقیاتی بینک اور یورپی یونین کے تعاون سے تیار کیا گیا ہے متاثرہ علاقوں میں بحالی اور تعمیر نو کے فوری چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے تین سال کی مدت میں کم از کم 16.3 بلین ڈالر کی فنڈنگ کی ضرورت ہے اس ضمن میں پاکستان آدھی رقم اپنے وسائل سے پورا کرے گا لیکن اس فرق کو پورا کرنے کے لئے ہمیں اپنے دوطرفہ اور کثیر جہتی شراکت داروں کی مسلسل معاونت درکار ہو گی.
شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان کو موسمیاتی لچک پیدا کرنے کے لئے طویل المدتی وژن کے تحت 10 سال کی مدت میں 13.5 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی بہتر مواصلاتی انفراسٹرکچر اور آبپاشی کے زیادہ مضبوط نظام کی تعمیر، اور مستقبل کی قدرتی آفات کے اثرات کو کم کرنے کے لیے موثر ابتدائی انتباہی نظام کو ڈیزائن کرنا پاکستان کے لئے اب ایک لازمی امر ہے.
انہوں نے کہا کہ جنیوا کانفرنس ایک طویل اور مشکل سفر کا آغاز ہے، اس سے لاکھوں متاثرین کو یقین ملے گا کہ انہیں فراموش نہیں کیا گیا اور عالمی برادری ان کی بحالی اور تعمیر نو کی کوششوں میں مدد کرے گی. انہوں نے کہا کہ ہم سب فطرت کی قوتوں کے رحم و کرم پر ہیں جو سرحدوں کا لحاظ نہیں کرتیں اور ہم صرف مشترکہ کوششوں سے ہی ان مسائل پر قابو پا سکتے ہیں امید ہے کہ جنیوا کانفرنس ہماری مشترکہ انسانیت اور سخاوت کے جذبے کی علامت اور ان تمام لوگوں اور ممالک کےلئے امید کا ذریعہ بنے گی جنہیں مستقبل میں قدرتی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے.