امدادی سامان میں ماہواری کیلئے استعمال کئے جانے والے سینیٹری نیپکنز بھیجنے سے پہلے پوچھ لیں کہ کیا وہ کسی کام کے بھی ہیں؟
پاکستانی خواتین کی جانب سے سیلاب سے بچاؤ کی کوششوں میں حصہ ڈالنے کے لیے بڑے شہروں میں سینیٹری پیڈز بڑی تعداد میں خریدے جا رہے ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کسی نے سیلاب سے متاثرہ خواتین سے یہ نہیں پوچھا کہ کیا انہیں ان کی ضرورت ہے بھی؟
ایک غریب کے نقطہ نظر سے دکھیں تو نیک نیتی پر مبنی یہ اقدام ضائع سمجھا جائے گا۔ شہروں میں رہائش پذیر خواتین جن کا دیہی علاقوں میں رہنے والی خواتین کے ساتھ کوئی باقاعدہ روابط نہیں وہ ان کی ضروریات کے بارے میں قیاس آرائیاں کر رہی ہیں۔
شاید ہمیں ان کی مدد کرنے سے پہلے ان کی ضروریات کے بارے میں جاننا چاہئیے، اور دوسرا بہترین آپشن ان لوگوں سے بات کرنا ہے جنہوں نے 2010 کے سیلاب کے دوران دیہی برادریوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر کام کیا ہے۔
گزشتہ سال بلوچستان کے زلزلے کے دوران کام کرنے کا تجربہ رکھنے والی ایک ترقیاتی پیشہ ور نیہا منکانی کہتی ہیں کہ “وہ (دیہی علاقوں کی خواتین) سینیٹری پیڈز کی جگہ کپڑا استعمال کرتی ہیں اور کئی سالوں سے حفظان صحت کے ساتھ ایسا کر رہی ہیں۔”
نیہا منکانی انڈس ہیلتھ نیٹ ورک کے لیے پاکستان بھر میں دائیوں کے ساتھ کام کر رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ماضی میں ان خواتین کی سینیٹری نیپکن تک رسائی نہیں تھی اور آفات سے نجات کے بعد بھی مستقبل میں ان کے ملنے کا امکان نہیں ہے۔ لہٰذا سینیٹری نیپکن بھیجنا بے کار ثابت ہو سکتا ہے۔
حفظان صحت ایک ضرورت ہے لیکن ان خواتین کی مدد کرنے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ سوتی رول یا سوتی کپڑے بھیجیں جسے وہ استعمال کر سکیں۔
نیہا نے یہ بھی کہا کہ سوتی کپڑوں کو دھویا جا سکتا ہے، لیکن ہوا میں نمی اور سورج کی روشنی کی کمی کی وجہ سے انہیں خشک کرنا ایک چیلنج رہا ہے۔
ماما بیبی فنڈ چلانے والی منکانی پناہ گزینوں کے بحران کے دوران یوگانڈا جیسی جگہوں پر بین الاقوامی سطح پر کام کر چکی ہیں۔
انہوں نے آج نیوز کو بتایا کہ جب ماہواری سے متعلق حفظان صحت کی مصنوعات کی بات آتی ہے تو ‘ثقافتی حساسیت’ ایک بار بار اٹھنے والا موضوع ہے۔
انہوں نے کہا کہ زیادہ تر لوگ سوچتے ہیں کہ ‘ایک سائز سب پر فٹ بیٹھتا ہے’۔
“آپ ایک ایسی چیز ان کے حوالے کرتے ہیں جو ماضی میں کسی نے استعمال نہ کی ہو۔ آپ اپنا حل دوسروں پر مسلط کر رہے ہیں بجائے اس کے کہ ان کی ضرورت کو سنیں۔”
انہوں نے انسٹاگرام پر ایک وسیع پیمانے پر گردش کرنے والے اپنے پیغام میں اسی بات کا اعادہ کیا تھا کہ انڈرویئر اور سینیٹری نیپکنز (جب تک کہ خواتین کی طرف سے خاص طور پر درخواست نہ کی گئی ہو) کا استعمال نہیں کیا جاتا ہے اور یہ کسی علاقے کے کوڑے میں اضافہ کرے گا۔
ہنگامی حل
ملتان کی بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی میں فائنل ایئر کی 23 سالہ طالبہ انعم خالد اور لاہور کی پنجاب یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی 22 سالہ بشریٰ ماہ نور سیلاب زدگان کے لیے فنڈز جمع کرنے کے لیے گزشتہ دو ماہ سے ایک مہم چلا رہی ہیں۔
ان کی “ماہواری جسٹس” مہم شاید صرف سوشل میڈیا پر موجود ہے لیکن اس نے پہلے ہی بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے لوگوں کو تقریباً آٹھ ہزار حفظان صحت کی (انڈرویئر اور سینیٹری پیڈز پر مشتمل) کٹس بھیجی ہیں۔
انعم نے نشاندہی کی کہ 2010 کے سیلاب کے دوران، بہت سی خواتین اندام نہانی کے انفیکشن کا شکار ہوئیں، اسی وجہ سے انہوں نے ماہواری کی صفائی سے متعلق مصنوعات کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے کے بارے میں سوچا۔
انہوں نے کہا کہ خواتین کی زیر قیادت تنظیمیں جن میں بلوچستان کے قلعہ سیف اللہ اور لسبیلہ کی تنظیمیں شامل ہیں، نے مہم کے بارے میں معلوم ہونے پر ان سے رابطہ کیا۔
وہ سمجھتی ہیں کہ شاید کچھ خواتین سینیٹری نیپکن کی عادی نہیں ہوں گی لیکن انہوں نے نشاندہی کی کہ ہنگامی حل وقت کی ضرورت ہے۔
“ہم دوبارہ استعمال کے قابل روئی کے پیڈ بھیجنا چاہتے تھے لیکن دوبارہ دھونے کے بعد خشک ہونا ایک بڑا چیلنج ہے اور یہ بھی یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ جراثیم صاف ہو گئے ہیں۔”
انعم نے مزید کہا، “یہ تشویش بھی تھی کہ ایک بار استعمال ہونے والے سینیٹری نیپکن کوڑے میں اضافہ کریں گے، اسی لیے وہ متبادل حل تلاش کر رہے ہیں۔”
انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر مہم کے حوالے سے تنقید اب پیچھے چھوٹ چکی ہے، کیونکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اپنا حصہ ڈالنے کے لیے آگے آئے ہیں اور ساتھ ہی سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں کام کرنے والے بھی سپلائی مانگ رہے تھے۔
“ہاں، لوگوں کو فوری مدد کی ضرورت ہے اور انہیں وہ ملنی چاہیے۔ لیکن وہ اپنی حفظان صحت پر کیوں سمجھوتہ کریں؟”
سینیٹری نیپکن سے آگے
عطیہ داؤد ایک مشہور شاعرہ، سماجی اور حقوق نسواں کی کارکن ہیں جن کا تعلق سندھ سے ہے، انہیں 2010 کے سیلاب سمیت قدرتی آفات سے نمٹنے کی کوششوں میں کام کرنے کا تجربہ ہے۔
انہوں نے آج ڈیجیٹل کو بتایا کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر متعدد خواتین سے بات کرتی ہیں۔
“آج، میں نے لسبیلہ کی کئی خواتین سے بات کی جنہوں نے مجھے سینیٹری نیپکن دکھائے اور کہا کہ انہیں نہیں معلوم کہ اس کے ساتھ کیا کرنا ہے۔”
عطیہ نے نشاندہی کی کہ سندھ میں خواتین میں زیر جامہ (انڈر وئیر) پہننے کا کلچر نہیں ہے۔
“اس کا مطلب ہے کہ وہ سینیٹری نیپکن استعمال نہیں کر سکتیں کیونکہ ان کے پاس اسے جگہ پر رکھنے کے لیے پیڈنگ نہیں ہوگی۔”
انہوں نے مزید کہا کہ کپڑا استعمال کرنا درست حل نہیں تھا، خاص طور پر اس بات پر غور کرتے ہوئے کہ انہیں “مردوں کی نظروں سے دور بند جگہوں” پر خشک کرنے کے لیے رکھا جاتا ہے اور اس سے جراثیم مکمل طور پر نکل نہیں سکتے۔
“تاہم، بیڈ شیٹ اور پرانے کپڑوں کے ٹکڑے ان خواتین کے لیے ترجیحی حل ہیں۔”
ایک اور کارکن منیزہ احمد جو دیہی برادریوں اور پسماندہ گروہوں کے ساتھ کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھتی ہیں، عطیہ کے جائزے سے اتفاق کرتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کی حقوق نسواں تنظیموں کا مجموعہ دیہی علاقوں کی خواتین کے لیے سینیٹری مصنوعات کو صحیح مصنوعات نہیں مانتا۔
منیزہ نے کہا کہ دیہی سندھ میں خواتین پلاسٹک پر مبنی سینیٹری نیپکن استعمال نہیں کرتیں۔
“ایسے حالات میں خواتین سے مشاورت کم ہوتی ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ انہیں اس کی ضرورت ہے، ہمیں ان خواتین سے ان کی ضروریات کے بارے میں پوچھنے کی ضرورت ہے۔”
منیزہ نے کہا کہ شہری ماحول میں سرگرم کارکن اکثر حالات اور ثقافتی تناظر کے بارے میں محدود معلومات رکھتے ہیں۔
ان کے مطابق، “ہم متاثرہ علاقوں میں موجود خواتین سے معلومات حاصل کر رہے ہیں۔ حاملہ خواتین کے لیے غذائیت، بچوں کے فارمولے اور خوراک ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ دیگر خدشات بھی ہیں جن پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
“جیسا کہ ہم نے 2010 کے سیلاب اور 2005 کے زلزلے کے دوران دیکھا، خیموں میں خواتین تشدد اور ہراساں کیے جانے کا شکار ہیں۔ وہ اکثر رات کو باتھ روم نہیں جا سکتیں۔”
سندھ کے خیرو ڈیرو میں برسوں سے کام کرنے والی ایک خاتون نے آج ڈیجیٹل کو بتایا کہ ان کے علاقے میں خواتین سینیٹری نیپکن استعمال نہیں کرتیں۔ اس کے بجائے، انہوں نے فوری ضروریات کی اشیاء کیلئے سفارش کی جن میں چاول کا آٹا، چاول، مسور کی دال، چنے کی دال، چائے کی پتی، شکر، کھانا پکانے کے تیل، کپڑے دھونے کا پاؤڈر، ڈیٹرجنٹ صابن، نہانے کا صابن، خواتین اور مردوں کے شلوار قمیض، کمبل، بچوں کے کپڑے اور چار پائیاں شامل ہیں۔
آج نیوز نے جن کارکنوں سے بات کی ان کا کہنا تھا کہ ماہواری کی حفظان صحت کی فراہمی کو شیونگ کٹس سے موازنہ کرتے ہوئے جھوٹی مساویانہ بحثوں میں نہیں پڑنا چاہیے اور نہ ہی انہیں ‘لگژری آئٹمز’ کے طور پر برانڈ کیا جانا چاہیے، جیسا کہ کچھ لوگوں نے سوشل میڈیا پر کیا ہے۔
عطیہ داؤد نے کہا کہ یہ آگاہی اور وقت کا مسئلہ ہے، ماہواری کی صفائی کے تصورات کو متعارف کرانے کے لیے مزید جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ خوراک، رہائش اور صحت کے بنیادی خدشات کے ساتھ فوری امداد ترجیح ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مدد کرنے والے شہریوں کو یہ بات ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ دیہی علاقوں خصوصاً سندھ کے لوگوں کی خوراک کی عادات شہری لوگوں سے بہت مختلف ہیں۔
“دیہی علاقوں میں زیادہ تر لوگ بریانی، قورمہ اور نہاری جیسے کھانے کو ہضم کرنے سے قاصر ہیں۔”
انہوں نے کہا کہ یہ ریلیف کیمپوں میں بڑے پیمانے پر اسہال کی وجہ ہے۔
اس کے بجائے، لوگ ابلے ہوئے چاولوں کو ترجیح دیتے ہیں جسے وہ چینی کے ساتھ بھی کھاتے ہیں۔
“ایک دیگ بریانی بھیجنے کے بجائے، انہیں زردہ (میٹھا چاول) بھیجنا چاہیے۔”
انہوں نے کہا کہ یہ سندھ کے لوگوں کے لیے پیٹ بھر کھانے کا کام کرے گا۔
“خاص طور پر بچے اسے خوشی سے کھائیں گے۔ یہ لوگ دودھ میں ڈبو کر روٹی کھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔”