سال 2022 میں پاکستان میں جہاں ایک حکومت گری وہیں روپے کی قدر بھی گرتی ہی چلی گئی۔ ایک برس کے دوران روپے کی قیمت میں 50 روپے کی کمی ہوئی جو 28 فیصد سے زائد بنتی ہے۔
ایسا کیوں ہوا؟ سیاستدانوں سے پوچھیں تو وہ کچھ الگ ہی وجوہات بتائیں گے جس میں الزام تراشی کا عنصر زیادہ ہوگا۔ لہذا ہم نے سوچا کیوں نہ براہ راست ان لوگوں سے بات کی جائے جو منی مارکیٹ میں بیٹھے ہیں اور اسے چلا رہے ہیں۔ کرنسی ڈیلرز کے نمائندوں نے ہمیں نہ صرف 2022 ڈالر کے عروج اور روپے کی زوال کی اصل کہانی سنائی بلکہ یہ بھی بتایا کہ اگلے برس یعنی 2023 میں ڈالر کی قدر میں اضافہ ہو گا یا یہ کم ہوگی۔
ایکس چینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ کا کہنا ہے کہ 2022 پاکستانی روپے کے لیے بہت برا تھا۔ جنوری میں ایکس چینج ریٹ 178 روپے پر تھا اور آج انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر 225 روپے سے زائد ہے۔
ایک سال میں تین وزرائے خزانہ
جانے والے سال میں پاکستان میں تین وزرائے خارجہ آئے اور ہر ایک کی معیشت کے حوالے سے الگ سوچ تھی۔ شوکت ترین نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے باوجود پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی کا دفاع کیا، جس کا خزانے پر اثر پڑا۔ عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو شوکت ترین نے بھی رخصت لی۔ ان کے بعد مفتاح اسماعیل آئے جنہوں نے معیشت کو بحران سے نکالنے کے لیے ”مشکل فیصلے“ کیے اور آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرائی کہ اگلے پچھلے تمام معاہدوں پر عمل درآمد کیا جائے گا۔
مفتاح اساعیل صرف چھ ماہ کے لیے وزیر خزانہ رہے۔ یعنی صرف اتنا وقت جو اسحاق ڈار کی واپسی ممکن بنانے کے لیے ضروری تھا۔ ستمبر کے آخری دنوں میں انہوں نے استعفیٰ دیا اور اسحاق ڈار نے خزانہ سنبھال لیا۔ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا اور ڈالر 200 روپے سے نیچے جائے گا۔
ڈار کی واپسی سے قبل دو مرتبہ ڈالر کی قیمت 240 روپے کے قریب پہنچی لیکن جب سے اسحاق ڈار آئے ہیں یہ 230 سے اوپر نہیں گئی۔ کیا اسے ان کی کامیابی کہا جا سکتا ہے۔ شاید نہیں!
انٹربینک اور گرے مارکیٹ کے ریٹ میں بڑھتا فرق
اس وقت انٹربینک مارکیٹ، اوپن مارکیٹ اور گرے مارکیٹ میں ڈالر کے الگ الگ نرخ چل رہے ہیں اور ان میں بڑا فرق ہے۔ بہت سے لوگوں کو جب اوپن مارکیٹ سے ڈالر نہیں ملتا تو وہ گرے مارکیٹ میں جاتے ہیں۔ انٹربینک کے ریٹ کا اطلاق صرف بینک ٹرانزیکشنز پر ہوتا ہے۔
تین روز قبل جب ہم نے ظفر پراچہ سے گفتگو کی تو ان کا کہنا تھا کہ اس وقت انٹربینک میں ڈالر کی قیمت 225 روپے ہے جبکہ گرے مارکیٹ میں 255 روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس بڑے فرق کی وجہ ڈالر کے ”ان فلوز“ میں کمی ہے جس کی وجہ سے قلت پیدا ہو رہی ہے۔
پراچہ کا کہنا تھا کہ عام لوگوں کو مارکیٹ میں ڈالر نہیں مل رہے، کرنسی ڈیلرز کوشش کر رہے ہیں کہ حقیقی ضرورت مندوں یعنی بیرون ملک سیاحت، تعلیم یا علاج کے لیے جانے والوں ڈالر فروخت کریں۔
”لیکن اس وقت صورت حال بہت خراب ہے۔“
لوگ بلیک مارکیٹ میں کیوں جاتے ہیں
ایکس چینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین ملک بوستان کہتے ہیں کہ حقیقی خریداروں کو ڈالر مل رہا ہے لیکن انہیں خریداری کے اس عمل سے گزرنا پڑتا ہے جو شفافیت یقینی بنانے کے لیے متعارف کرایا گیا ہے۔
ملک بوستان نے بدھ کو کراچی میں پریس کانفرنس کے بعد ”آج نیوز“ سے گفتگو کی۔
انہوں نے کہا کہ ڈالر کی خریداری سے متعلق بعض پابندیوں کی وجہ سے لوگ بلیک مارکیٹ میں جاتے ہیں۔ قانونی طریقے سے ڈالر کی خریداری کے لیے آپ کو بائیومیٹرک تصدیق، ویڈیو ریکارڈنگ اور ایف بی آر اور فنانشنل مانیٹرنگ یونٹ کو اطلاع دینے کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔
سرکاری افسران ڈالر خریدنے کے مقصد، رقم کے ذرائع اور خریدار کی شناخت کے حوالے سے سوالات کرتے ہیں۔
ملک بوستان کے مطابق لوگ ان سوالات سے بچنے کے لیے بلیک مارکیٹ کا رخ کرتے ہیں اور یہی لوگ اس وقت رونا دھونا مچائے ہوئے ہیں۔ باقی لوگوں خاص طور پر تعلیم، صحت اور سیاحت کے لیے سفر کرنے والوں کو ڈالر مل رہا ہے۔
کرنسی اسمگلنگ
ملک بوستان نے بدھ کو اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ ہر مہینے دو ارب ڈالر پاکستان سے افغانستان اسمگل ہو رہے ہیں۔ یہی بات انہوں نے آج نیوز سے گفتگو میں دہرائی۔ ان کے مطابق ماضی میں ڈالر کی خریداری پر کوئی روک ٹوک نہیں تھی اور ایک شخص 50 ہزار ڈالر تک خرید سکتا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ پچھلے 25 برسوں میں لوگ 180 ارب ڈالر پاکستان سے باہر لے گئے ہیں۔
ملک بوستان نے کہاکہ ڈالر کی اصل قیمت 200 روپے سے نیچے ہے۔ انہوں نے خطے کے دیگر ممالک کی مثال دی۔ افغانستان پر عالمی پابندیوں ہیں لیکن افغانستان میں ڈالر کی قدر لگ بھگ 88 افغانی ہے۔ اسی طرح بھارت اور بنگلہ دیش میں ڈالر 95 روپے یا ٹکا کے آس پاس فروخت ہو رہا ہے۔ ”یہاں یہ 225 روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔ ہمارے حالات ان سے زیادہ خراب نہیں۔“
کیا 2023 میں ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوگا
ہم نے کرنسی مارکیٹ کے دونوں سرکردہ رہنماؤں سے پوچھا کہ کیا 2023 میں ڈالر کی قدر میں اضافہ ہوگا یا کمی آئے گی۔
ملک بوستان پاکستان کے اقتصادی حالات کے بارے میں پرامید ہیں۔ انہوں نے پیش گوئی کی کہ اگلے سال روپے کی قدر میں اضافہ ہوگا۔
انہوں نے سیاستدانوں پر زور دیا کہ وہ ریاست کو اپنے ذاتی مفادات پر مقدم رکھیں۔ پہلے ریاست پھر سیاست۔ ملک بوستان کا کہنا تھا کہ اگر سیاستدان مل کر بیٹھ جائیں تو ڈالر کا ریٹ اتنی تیزی سے نیچے آئے گا کہ آپ تصور بھی نہیں کر سکتے۔
تاہم ظفر پراچہ کے خیال میں مستقبل میں سخت چیلنجز درپیش ہوں گے۔ پاکستان کو 75 ارب ڈالر تین برسوں میں ادا کرنے ہیں اور ان میں سے 30 ارب ڈالر اگلے چھ ماہ میں دینے ہیں۔
ظفر پراچہ کے مطابق سرمایہ کار اور دوست ممالک جنہوں نے پاکستان کی مدد کی یقین دہانی کرائی تھی اب پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ انہوں نے انتظار کرو اور دیکھو کی پالیسی اپنا لی ہے، ماضی کا دباؤ کم ہونے میں دو تین برس لگیں گے۔