ٹویوٹا کے بعد سوزوکی کا بھی موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں بنانے کا پلانٹ بند کرنے کا اعلان روپے کی قدر میں بے لگام کمی اور ایل سیز کھولنے پر پابندیوں سے کاروبار شدید متاثر

پاک سوزوکی موٹر کمپنی (PSMC) نے انوینٹری کی کمی کا حوالہ دیتے ہوئے پیر کو اپنے گاڑیوں اور موٹر سائیکل بنانے والے پلانٹس کو دو سے چھ جنوری تک عارضی طور پر بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔

پاکستان اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) کو بھیجے گئے نوٹس میں پاک سوزوکی نے کہا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے مئی 2022 کے سرکلر نمبر 09 کے ذریعے ایچ ایس کوڈ 8703 زمرہ (بشمول CKDs) کے تحت درآمد کی پیشگی منظوری کے لیے ایک طریقہ کار متعارف کرایا ہے۔

نوٹس میں کہا گیا کہ ”پابندیوں نے درآمدی کنسائنمنٹ کی کلیئرنس پر منفی اثر ڈالا ہے، جس کے نتیجے میں انوینٹری کی سطح متاثر ہوئی۔“

سوزوکی کاروں، پک اپ، وینز، 4×4، موٹر سائیکلوں اور متعلقہ اسپیئر پارٹس کی اسمبلنگ، بڑے پیماننے پر مینوفیکچرنگ اور مارکیٹنگ میں مصروف پاک سوزکی نے کہا کہ، ”لہذا، انوینٹری کی سطح کی کمی کی وجہ سے کمپنی انتظامیہ نے 02 جنوری 2023 سے 06 جنوری 2023 تک کے لیے آٹوموبائل کے ساتھ ساتھ موٹر سائیکل بنانے والا اپنا ایک پلانٹ بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔“

پاکستان کی آٹو انڈسٹری، جو درآمدات پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے، شرح مبادلہ کے بحران میں پھنس گئی ہے، کیونکہ اسٹیٹ بینک نے روپے کی قدر میں بے لگام کمی کے بعد، لیٹرز آف کریڈٹ (LCs) کھولنے پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔

اقتصادی ماہرین نے اس پیشرفتی کی وجہ گاڑیوں کی بہت زیادہ قیمتوں کو قرار دیا ہے جس کی وجہ سے مانگ میں کمی آئی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ جب تک درآمدی پابندیوں میں نرمی نہیں کی جاتی اور توانائی کی قلت پر قابو نہیں پایا جاتا، صورت حال مزید خراب ہوتی جائے گی۔

اس سے قبل، بلوچستان وہیلز لمیٹڈ (BWHL) کی انتظامیہ نے بھی مارکیٹ میں آٹوز کی مانگ میں کمی کی وجہ سے پیداواری سرگرمیاں عارضی طور پر بند یا معطل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

اس ماہ کے شروع میں، انڈس موٹر کمپنی (IMC)، جو پاکستان میں ٹویوٹا برانڈ آٹوموبائلز کی اسمبلر ہے، نے بھی اعلان کیا تھا کہ وہ درآمدات کی منظوری سے متعلق تاخیر کی وجہ سے 20 دسمبر سے 30 دسمبر تک اپنا پروڈکشن پلانٹ مکمل طور پر بند رکھے گی۔  

پچھلے مہینے، آئی ایم سی کے حکام نے ایک کارپوریٹ بریفنگ سیشن میں کہا تھا کہ مرکزی بینک کی طرف سے عائد درآمدی پابندیاں اور روپے کی مسلسل گراوٹ ملک کے آٹو سیکٹر کو نقصان پہنچا رہی ہے۔

اس وقت عہدیداروں نے کہا تھا کہ روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے پیداواری لاگت میں اضافے کا بوجھ انڈسٹری کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے، جب کہ سود کی بلند شرحوں اور گاڑیوں پر اضافی ڈیوٹیز اور ٹیکسوں کے درمیان معاشی بدحالی کی وجہ سے طلب میں کمی آئی ہے۔

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں