آل پاکستان جیمز اینڈ جیولرز صرافہ ایسوسی ایشن (اے پی جی جے ایس اے) نے ملک میں سونے کی حد سے زیادہ بڑھتی قیموں کا ذمہ دار سٹے بازوں کو قرار دیا ہے، اور اسی وجہ سے آل پاکستان جیمز اینڈ جیولرز صرافہ ایسوسی ایشن کی جانب سے بدھ کو سونے کے نرخ ہی جاری نہیں کئے گئے۔
بزنس ریکارڈر کے مطابق اے پی ایس جے اے روزانہ مارکیٹ کو اشیاء کی بین الاقوامی نقل و حرکت کے ساتھ ساتھ شرح مبادلہ کے ساتھ میل کھاتی سونے کی قیمتوں کے حوالے سے مطلع کرتا ہے۔
پاکستان میں رواں سال صرف دسمبر میں سونے کی قیمتوں نے بلندیوں کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے، حکومتی متعلقہ ذرائع نے صرف تین ہفتوں میں تقریباً 20 فیصد اضافے کی نشاندہی کی، جبکہ اس وقت کے دوران سونے کی بین الاقوامی قیمتوں میں ایک فیصد سے بھی کم اضافہ ہوا۔
بدھ کو، مارکیٹ ٹاک نے ایک دن میں تقریباً سات فیصد کے ہوشرُبا اضافے کے ساتھ سونے کی قیمت (ایک تولہ 24 قیراط کے لیے) 190,000 روپے کے قریب تجویز کی۔
جبکہ سونے کے کاروبار سے منسلک بڑی کمپنی اے آر وائی گروپ کے آن لائن پورٹل sahulatwallet.com نے ایک تولہ سونے کی قیمت 189,003 روپے ظاہر کی۔
”اے پی جی جے ایس اے“ کے مطابق مہینے کے شروع میں یہ شرح 162,750 روپے اور گزشتہ پیر 174,900 روپے بتائی گئی تھی۔
”اے پی جی جے ایس اے“ کے چیئرمین ہارون چند کہتے ہیں کہ بدھ کو شرحیں مارکیٹ کے ساتھ شیئر نہیں کی گئیں۔
انہوں نے بزنس ریکارڈر کو بتایا، ”اس کی وجہ یہ ہے کہ مارکیٹ میں بڑے پیمانے پر غیر یقینی صورتِ حال ہے، کیونکہ سٹے باز سونے کی قیمتوں میں اضافہ کر رہے ہیں۔“
انہوں نے کہا کہ ”میں مارکیٹ کو فالو کر رہا ہوں۔ طلب تو ہے لیکن ریٹ کو 190,000 روپے تک لے جانے کے لیے کافی نہیں ہے۔“
یہ صورتِ حال ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب پاکستان کی معیشت کا انحصار گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر پر ہے جو ڈیڑھ ماہ کے درآمدی کور سے بھی کم رہ گئے ہیں۔
ایک طرف جہاں پالیسی ساز ملک میں ڈالر جمع کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں تو دوسری جانب ایسا لگتا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) کے ساتھ بات چیت میں کوئی رکاوٹ آگئی ہے، اور ’دوست ممالک‘ سے مالی امداد بھی ابھی تک عمل میں نہیں آئی ہے۔
پہلے ہی سیلاب کی تباہی سے دوچار پاکستان نے حالیہ ہفتوں میں ڈالر کے لیے ایک ’غیر قانونی بلیک‘ مارکیٹ کا ظہور بھی دیکھا ہے، جس کی وجہ سے تاجر انٹر بینک مارکیٹ میں روپے کی قدر 220 سے 225 کے درمیان مستحکم کرنے میں ناکام نظر آئے۔
مارکیٹ ذرائع سے پتہ چلتا ہے کہ بلیک مارکیٹ میں ڈالر 250 سے زیادہ پر ٹریڈ ہو رہا ہے۔
اس صورتِ حال نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو ایک عوامی سطح پر میں یہ اعتراف کرنے پر مجبور کردیا ہے کہ امریکی ڈالر کی سمگلنگ ہو رہی ہے۔
ایسی ہی صورتِ حال اب سونے کے معاملے میں بھی نظر آتی ہے۔
معاشی بدحالی کے وقت ڈالر کو محفوظ پناہ گاہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
ڈالر لفظی طور پر پہنچ سے باہر ہونے کی صورت میں سونا غیر یقینی صورتِ حال سے بچنے کا اگلا بہترین آپشن بن گیا ہے۔
تاہم، مارکیٹ کے عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہتے ہیں کہ حالانکہ سونے کی مانگ میں اضافہ دیکھا گیا ہے، لیکن اتنی قلیل مدت میں قیمتوں میں زبردست اضافہ اب بھی ”جائز نہیں“ ہے۔
ڈائریکٹر اے اے گولڈ کموڈٹیز عدنان آگر کہتے ہیں کہ سونے کے تاجر عام طور پر اوپن مارکیٹ میں مروجہ شرح تبادلہ کی بنیاد پر قیمتوں کا حساب لگاتے ہیں۔
“تاہم، آپ کو انٹر بینک یا یہاں تک کہ رسمی اوپن مارکیٹ ریٹ پر ڈالر نہیں مل رہے، بلیک مارکیٹ میں ڈالر 260 روپے میں بک رہا ہے۔ جس کا اثر سونے کے تاجر بھی اپنی قیمتوں میں دکھا رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان مرسنٹائل ایکسچینج (PMEX) میں ایک تولہ سونا تقریباً 159,000 روپے پر ٹریڈ ہو رہا ہے، جو انٹر بینک اور بین الاقوامی سونے کے نرخوں کی عکاسی کرتا ہے۔
تاہم، انہوں نے کہا کہ ایکسچینج میں بھی سونا تیزی سے کم ہو رہا ہے۔