اہم نکات
- مجموعی 8 ارب روپے کی آمدن سے صرف ڈھائی ارب براہ راست تعلیم پر خرچ ہوتے ہیں۔ ان میں اساتذہ کی تنخواہیں بھی شامل ہیں۔
- تین برس سے بجٹ منظور کرائے بغیر رقم خرچ ہو رہی ہے
- تعلیم سے ہٹ کر اخراجات میں اضافہ جاری۔ مستقبل تاریک دکھائی دیتا ہے
کراچی یونیورسٹی کے 45 ہزار کے قریب طلبہ کے لیے تعلیمی سرگرمیاں غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی ہو گئی ہیں۔ تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر تقریباً ایک ہزار اساتذہ جن میں 650 مستقل فیکلٹی اراکین اور 400 وزیٹنگ ٹیچرز شامل ہیں، نے تمام تعلیمی سرگرمیوں کا بائیکاٹ کر دیا ہے۔ پاکستان کی بڑی جامعات میں سے ایک میں امور ٹھپ ہوگئے ہیں۔
جامعہ کراچی میں ہونے والے احتجاج میں نان ٹیچنگ عملے کے 2 ہزار اراکین بھی شامل ہیں۔ کراچی یونیورسٹی ٹیچرز سوسائٹی کے ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ تعلیمی سرگرمیوں اس وقت تک بحال نہیں ہوں گی جب تک تنخواہ کی ادائیگی نہیں ہوتی لیکن اس میں کئی دن لگنے کا خدشہ ہے۔
جامعہ کراچی مجموعی طور پر سال میں 8 ارب روپے کی خطیر آمدن دکھاتی ہے لیکن یہ صرف 35 کروڑ روپے کے لگ بھگ کی ماہانہ تنخواہیں ادا نہیں کر پا رہی۔ اس رقم میں سے اساتذہ کو محض 15کروڑ ملنے ہیں۔ یونیورسٹی کے معاشی ذمہ داروں کی یہ واحد ناکامی نہیں جس کی وجہ سے اساتذہ پریشان ہیں۔ پچھلے ڈیڑھ برس سے جامعہ کے شام کے پروگرام (ایوننگ پروگرام) کی ادائیگیاں بھی نہیں ہوسکیں۔ ٹیچرز سوسائٹی کے رہنما کے بقول اساتذہ کے 10 کروڑ روپے یونیورسٹی نے روک رکھے ہیں۔
کسی حد تک اس مسئلے کا تعلق وفاقی اور سیاسی حکومتوں کی مجموعی معاشی صورت حال ہے اور اس وقت تنخواہوں کی ادائیگی کی ظاہری وجہ سندھ حکومت کی طرف سے گرانٹ کی قسط منتقل نہ ہونا ہے ۔ لیکن اس بحران سے پہلے بھی پچھلے تین برسوں میں ڈائریکٹر فنانس کو جو چھوٹ دی گئی اس کے نتیجے میں 2020 کے بعد سے معاملات خراب ہوئے ہیں۔ جامعہ جامعہ کی فنانس اینڈ پلاننگ کمیٹی کا اجلاس ستمبر 2020 کے بعد نہیں ہوا۔ یونیورسٹی میں اساتذہ اور نان ٹیچنگ اسٹاف یونینز کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ پچھلے تین بجٹ سینیٹ سے مںظور نہیں کرائے گئے۔
کیا مالی معاملات کی نگرانی ختم ہونے کے سبب یونیورسٹی کے معاشی حالات خراب ہوئے، اس سوال کا درست جواب تو آڈیٹرز ہی دے سکتے ہیں۔ ”آج نیوز“ کی اس رپورٹ میں یہ جائزہ لیا گیا ہے کہ یونیورسٹی کو ملنے والا پیسہ کہاں اور کیسے خرچ ہو رہا ہے۔ ہم نے اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے جو جامعہ میں کئی طلبہ اور اساتذہ نے ہم سے پوچھا: کیا جامعہ کراچی کی ترجیح تعلیمی سرگرمیاں ہیں یا کچھ اور؟
بائیکاٹ کب تک جاری رہے گا؟
پہلا بنیادی سوال تو یہ ہے کہ حالیہ بائیکاٹ کب تک جاری رہے گا۔ کراچی یونیورسٹی کے اساتذہ اور نان ٹیجنگ عملے نے جمعرات کو ”یوم سیاہ“ منایا اور اعلان کیا کہ جمعہ سے تمام تعلیمی سرگرمیوں کا ”بائیکاٹ“ کیا جائے گا۔ یہ بائیکاٹ جمعہ کو شروع ہوگیا اور تعلیمی سرگرمیاں معطل رہیں۔
اس احتجاج کی قیادت کراچی یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن کر رہی ہے۔ اس کے صدر فیضان الحسن نقوی نے ”آج نیوز“ کو بتایا کہ ٹیچرز سوسائٹی کی نومنتخب شدہ باڈی آتے ہی تعلیمی سرگرمیوں کا بائیکاٹ نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن انہیں مجبوری میں فیصلہ کرنا پڑا کیونکہ نومبر کی تنخواہیں بھی تاخیر کا شکار ہوئی تھیں۔
فیضان الحسن نقوی کا کہنا تھا کہ جامعہ کے انتظامی معاملات پہلے ہی تعلیمی تدریسی اور ریسرچ کی سرگرمیوں کو متاثر کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر آدھی جامعہ کی گیس بند ہے جس کا سبب یہ ہے کہ ایک ٹوٹی ہوئی لائن کی مرمت نہیں ہوئی۔ ”آپ بچوں کے ساتھ لیب نہیں کر سکتے۔“
فیضان الحسن نقوی کے مطابق احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک تنخواہوں کی ادائیگی نہیں ہوتی۔ ان کا کہنا تھا کہ ”اگر آج بھی چیک موصول ہوجائے تو تنخواہیں اساتذہ کے بینک اکاؤنٹس میں آنے میں چھ یا سات تاریخ ہو جائے گی۔“
جمعہ کی شام تک تنخواہوں کے مسئلے کا کوئی حل دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
کے یو ٹی ایس کے سیکریٹری کا کہنا تھا کہ جامعہ کا بحران اس غلط خیال کا نتیجہ ہے کہ یونیورسٹی کو ملنے والی رقم اخرجات ہیں۔ ”بھئی آپ کو اس خرچہ نہ سمجھیں۔“
یاد رہے کہ دنیا بھر میں جامعات پر خرچ ہونے والی رقم کو سرمایہ کاری کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ایسی سرمایہ کاری جس کا فائدہ پورے معاشرے کو ہوتا ہے۔
فیضان الحسن نقوی اور کئی دیگر کے خیال میں حکام جامعہ کراچی میں تعلیم کو فوقیت نہیں دے رہے جو کسی بھی جامعہ کا بنیادی کام ہے۔
کراچی یونیوسٹی کو سالانہ کتنی رقم ملتی ہے؟
کراچی یونیورسٹی کی آمدن کے تین بڑے ذرائع ہیں: وفاقی حکومت سے ایچ ای سی کے ذریعے ملنے والی گرانٹس، سندھ حکومت کی گرانٹ اور طلبہ سے ملنے والی رقم۔
آج نیوز نے جو دستاویزات دیکھی ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یونیورسٹی کا تخمینہ ہے اسے رواں مال سال یعنی 2022-23 میں 8 ارب 40 کروڑ روپے کی آمدن ہو رہی ہے۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی گرانٹس سہ ماہی قسطوں میں ملتی ہیں۔ اس ماہ سندھ حکومت سے قسط نہیں آئی جس کے نتیجے میں جامعہ تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کر سکی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسی صورت حال پیدا ہی نہیں ہونی چاہیے تھی کہ گرانٹ تاخیر کا شکار ہونے پر جامعہ تنخواہیں نہ دے سکے۔ وجہ یہ ہے کہ کراچی یونیورسٹی طلبہ سے کم ازکم 3.7 ارب روپے حاصل کرتی ہے۔ اس میں 3.2 ارب روپے ٹیوشن فیس، دیگر فیسوں اور ہاسٹل چارجز سے آتے ہیں۔ باقی رقم پرائیویٹ طلبہ اور جامعہ سے ملحق کالجز سے آتی ہے۔
وفاقی اور صوبائی حکومتیں جب بجٹ تیار کرتی ہیں تو وہ یا تو خسارہ دکھاتی ہیں یا سرپلس۔ جامعات جیسے اداروں کو اپنے کھاتوں میں دونوں طرف برابر رقوم دکھانا ہوتی ہیں۔ یعنی جتنے اخراجات ہیں اتنی ہی آمدن بھی ہونی چاہیئے۔ آمدن سے زیادہ اخراجات نہیں کیے جا سکتے۔
اب جامعہ کراچی کے کھاتے میں آمدن 8.4 ارب روپے دکھائی گئی ہےلیکن یہ حقیقی صورت حال نہیں۔ یہاں پر اکاؤنٹنگ کے بنیادی اسباق کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔
جامعہ کراچی نے 2022-23 کے بجٹ میں دکھایا ہے کہ اسے وفاقی حکومت سے 3.14 ارب روپے ملنے والے ہیں۔ لیکن جولائی کے ایک لیٹر سے معلوم ہوتا ہے کہ ایچ ای سی نے رواں مالی سال کے لیے صرف 1.899 ارب کی مجموعی گرانٹس کی منظوری دی ہے۔ اس میں 8کروڑ 80 لاکھ روپے ضرورت مند طلبہ کے لیے اسکالرشپش (Need based scholarship) بھی شامل ہیں۔ جس کے بارے میں طلبہ کا کہنا ہے کہ یہ رقوم انہیں مل ہی نہیں رہیں۔
اس طرح وفاقی حکومت سے جامعہ کراچی کو اس کے تخمینے سے 1.14 روپے کم مل رہے ہیں۔
اسی طرح سندھ حکومت سے 1.42 ارب روپے کی آمدن دکھائی گئی ہے جب کہ سندھ حکومت 1.4 ارب روپے دے رہی ہے۔ یہاں بھی متوقع آمدن اور حقیقی آمدن میں ایک خلا موجود ہے۔
براہ راست تعلیم پر کتنی رقم خرچ ہوتی ہے
جامعہ کراچی اپنی مجموعی آمدن کا محض ایک چوتھائی یا ڈھائی ارب روپے ان سرگرمیوں پر خرچ کرتی ہے جو براہ راست تعلیم سے متعلق ہیں۔ تحقیق اور لائبریری کےلیے مجموعی طور پر صرف5 کروڑ 40 لاکھ روپے رکھے گئے ہیں جس میں ڈینز کی صوابدید پر خرچ ہونے والی رقم بھی شامل ہے۔
کراچی یونیورسٹی اساتذہ کو سال بھر میں تنخواہوں کی مد میں 1.809 ارب روپے ادا کرتی ہے۔ نان ٹیچنگ اسٹاف کی مجموعی سالانہ تنخواہیں 1.84 ارب روپے ہیں۔
یہ تنخواہیں 45 کروڑ کے الاؤنسز کے علاوہ ہیں جو اساتذہ اور نان ٹیچنگ اسٹاف کو مشترکہ طور پر دیئے جاتے ہیں۔
کراچی یونیورسٹی سب سے زیادہ چار ارب روپے ”نان سیلری اخراجات“ کی مد میں خرچ کرتی ہے۔ اس ذمرے میں بجلی اور گیس کے بلوں سے لے کر کمپیوٹرز کی خریداری سمیت کئی معاملات آجاتے ہیں۔ ڈیڑھ ارب روپے کے پنشن سے متعلق اخراجات بھی اسی میں سے ادا کیے جاتے ہیں۔
یہ چار ارب روپے کے اخراجات بڑی حد تک غیر تعلیمی مقاصد پر ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر کراچی یونیورسٹی نے بجلی کے بلوں کے لیے 35 کروڑ روپے کی رقم رکھی ہے یعنی ہر مہینے دو کروڑ 90 لاکھ کے بجلی بل کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ یہ بجلی تعلیمی مقاصد سے زیادہ رہائشی عمارات میں استعمال ہوتی ہے۔
ذرائع کے مطابق کووڈ کی وبا کے دوران جب لاک ڈاؤن لگایا گیا تو یونیورسٹی کا ماہانہ بل ڈھائی کروڑ روپے آیا۔ جب لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد کلاسز شروع ہوئیں تو بل بڑھ کر ساڑھے تین کروڑ روپے ہوگیا۔ گویا تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی عمارتوں کی بجلی کی لاگت صرف ایک کروڑ روپے ماہانہ تھی۔ باقی ڈھائی کروڑ بجلی کے اس استعمال کے لیے دیئے جا رہے تھے جو غیرتعلیمی تھا۔
اب بجلی کے نرخ بڑھ گئے ہیں تو گذشتہ مہینے جامعہ کو 6 کروڑ روپے کا بل موصول ہوا ہے۔
ایسے معاشی چیلنجز کے سامنے انتہائی محتاط منصوبہ بندی اور اخراجات پر سخت کنٹرول کے ذریعے ہی جامعہ کے مالی معاملات بہتر کیے جا سکتے ہیں۔
معاشی فیصلے لینے کا اختیار کس کے پاس ہے؟
ایک بات جو ہم نے تقریباً ہر ایک سے سنی وہ مالی معاملات کی نگرانی نہ ہونے کی تھی۔
کراچی یونیورسٹی کے مالی امور کی ذمہ داری ڈائریکٹر فنانس (ڈی ایف) کے پاس ہے۔ کے یو ٹی ایس کے سیکریٹری فیضان الحسن نقوی کے مطابق خود وائس چانسلرز اساتذہ کو بتا چکے ہیں کہ ڈائریکٹر فنانس مالی معاملات میں خود مختار ہے، وہ اسے کچھ نہیں کہہ سکتے۔
موجودہ ڈائریکٹر فنانس طارق کلیم ہیں جنہوں نے 2019 میں چارج سنبھالا۔ وہ 2015 سے 2017 کے دوران بھی ڈائریکٹر فنانس رہ چکے ہیں۔
فیضان الحسن نقوی اور نان ٹیچنگ اسٹاف کے دو نمائندں حسان اوج اور افتخار احمد نے ”آج نیوز“ کو بتایا کہ جامعہ کراچی کی فنانس اینڈ پلاننگ کمیٹی کا اجلاس پچھلے تین برس سے نہیں ہوا۔
یونیورسٹی کے قواعد کے تحت فنانس کمیٹی کا کام مالی معاملات کی نگرانی اور پلاننگ، ڈیولپمنٹ، فنانس، انوسمنٹ اور اکاؤنٹس پر مشاورت فراہم کرنا ہے۔ اس کمیٹی کا آخری اجلاس 2020 میں ہوا تھا۔ فیضان الحسن نقوی کے مطابق ڈائریکٹر فنانس نے تین برسوں سے بجٹ کبھی فنانس کمیٹی کے سامنے نہیں رکھا۔
فنانس کمیٹی کے بعد بجٹ سینڈیکٹ اور سینیٹ میں رکھا جاتا ہے۔ تاہم ان دو اداروں کے سامنے بھی بجٹ پیش نہیں کیا گیا۔
فیضان الحسن نقوی کے مطابق ڈائریکٹر فنانس صرف ایک پرچہ بنا کر ایچ ای سی حکام کو بھیج دیتے ہیں۔
انصاف ترقی پسند گروپ کے صدر افتخار احمد کا کہنا ہے کہ ڈائریکٹر فنانس پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ فنڈز کا بندوست کریں اور گرانٹ کی منتقلی کے لیے کردار ادا کریں۔ ”اب فنانس چانسلر تو ہر جگہ کٹورہ نہیں لے کر جا سکتا۔“
ہم نے ڈائریکٹر فنانس طارق کلیم کو سوالات بھیجے جن کا جواب نہیں آیا۔ ان کی طرف سے جواب موصول ہونے پر اس خبر کو اپ ڈیٹ کر دیا جائے گا۔
تاریک مستقبل
جہاں اس وقت تعلیمی اخراجات کے لیے جامعہ کی مجموعی آمدن میں سے صرف ایک چوتھائی رقم بچتی ہے وہیں مستقبل اس سے بھی زیادہ بھیانک ہے۔
تقریباً 300 ملازمین اگلے دو برس کے دوران ریٹائر ہو رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں پنشن کے اخراجات ڈیڑھ ارب روپے سے بڑھ کر دو ارب روپے ہو جائیں گے۔ پنشن کی ادائیگی کے لیے جامعہ نے انڈومنٹ فنڈ قائم کرنا تھا لیکن اس معاملے پر اب تک کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی۔
بجلی کے نرخوں میں حالیہ اضافے کے بعد جامعہ کا ماہانہ بجلی بل پانچ کروڑ روپے سے کم ہونے کا امکان نہیں۔ خاص طور پر اس صورت میں جب حالات جوں کے توں رہے۔ اس کا مطلب ہے کہ جامعہ سالانہ 70 کروڑ روپے بجلی کے بلوں کی مد میں دے گی۔ یہ رقم مختص کردہ 35 کروڑ سے دگنی ہے۔
گویا اساتذہ کی تنخواہوں کے لیے پیسے پھر کم پڑ جائیں گے۔
وفاقی اور صوبائی حکومتیں جس مالی بحران سے گزر رہی ہیں اس میں ان کی جانب سے جامعہ کی فنڈنگ بڑھائے جانے کا امکان نہیں ہے۔ کراچی یونیورسٹی متوسط طبقے کے نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اگر فیسیں مزید بڑھائی گئیں تو کم آمدن والے خاندانوں کے بچے تعلیم سے محروم ہو جائیں گے۔
اساتذہ کو تنخواہوں کی ادائیگی نہ کرنا مسئلے کا حل ہرگز نہیں۔ ایوننگ پروگرام پہلے ہی مسائل کا شکار ہو رہا ہے۔ کراچی یونیورسٹی ٹیچرز سوسائٹی کے سیکریٹری کے مطابق جامعہ کی جانب سے 10 کروڑ روپے کی رقم ادا نہ کیے جانے کے باعث کئی اساتذہ نے شام کی کلاسز پڑھانا چھوڑ دی ہیں۔
یہ خبر پہلے انگریزی میں شائع کی گئی جو آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔