پاکستانی میڈیا پرایک بار پھر سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے سعودی عرب سے ملنے والی بیش قیمت گھڑی اور دیگر تحائف کی فروخت کی خبریں گرم ہیں۔
گزشتہ رات نجی ٹی وی جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں شریک پاکستانی نژاد اماراتی بزنس مین کی جانب سے دعویٰ کرتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ شہزاد اکبر کی جانب سے فون پر پیشکش کے بعد یہ گھڑی فرح گوگی دبئی لے کر پہنچی تھیں جہاں اسے عمر فاروق نے خریدا۔
عین ممکن ہے کہ بہت سے پڑھنے والوں کے لیے عمر فاروق ایک جانی پہچانی شخصیت ہوں، کیونکہ ماضی میں ان کا نام ایک مختلف حوالے سے پاکستانی میڈیا کی زینت بنتا رہا ہے۔
عمر فاروق سابقہ پاکستانی اداکارہ اور ٹی وی میزبان صوفیہ مرزا کے سابق شوہر ہیں جن کے خلاف صوفیہ نے جڑواں بچیوں کی حوالگی اور والد کی جانب سے انہیں اغواء کر کے بیرون ملک لے جانے کا مقدمہ دائر کیا تھا۔
صوفیہ اورعمر کی شادی 2006 میں ہوئی تھی جو کچھ ہی عرصہ چل سکی، اس جوڑی کے یہاں جڑواں بچیاں پیدا ہوئیں جن کی حوالگی کیلئے طلاق کے بعد صوفیہ نے لاہور کی گارڈین کورٹ سے رجوع کیا اور فیصلہ ان کے حق میں آیا، تاہم کچھ عرصے بعد اداکارہ نے عدالت سے رجوع کیا کہ سابق شوہر نے دونوں بیٹیاں اغوا کرلی ہیں۔
لاہور ہائیکورٹ نے عمر فاروق ظہور کا نام ای سی ایل میں ڈالا تھا تاہم 2009 میں اس کیس کے دوران ہی ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ وہ جعلی پاسپورٹ پر ملک سے فرار ہوچکے ہیں، جس پر عمرفاروق کے ریڈ وارنٹ جاری کرتے ہوئے انہیں بیرون ملک سے گرفتار کرکے واپس لانے کی ہدایت کی گئی، مقدمہ 10 سال سے زائد عرصہ چلتا رہا۔
جون 2022 میں عمر فاروق نے درخواست دائر کی کہ میں لائبیریا میں پاکستان کا سفیر تعینات ہوچکا ہوں، لہٰذا ریڈ وارنٹ کی کارروائی روکتے ہوئے نام بھی ای سی ایل سے نکالا جائے، جس پرعدالت نے مقدمے میں صوفیہ مرزا کے فریق بننے کی درخواست منظورکرتے ہوئے اس وقت کی وفاقی حکومت کو عمر فاروق ظہور کا نام ای سی ایل سے فوری نکالنے کا حکم دیا تھا۔
ستمبر 2022 میں لاہور ہائیکورٹ نے عمر فاروق ظہور کے خلاف ایف آئی اے کی جانب سے ایڈیشنل سیشن جج کے حکم کے خلاف دائردرخواست خارج کردی۔
عدالت نے کہا کہ عمر فاروق کے خلاف ایف آئی آر میں وارنٹ اس حقیقت کے باوجود جاری کیے گئے کہ مجسٹریٹ کی جانب سے انہیں دبئی میں غیر ملکی پتے پر کوئی سمن یا نوٹس جاری نہیں کیا گیا۔
مذکورہ وارنٹ متعلقہ مجسٹریٹ نے جلد بازی میں اور مطلوبہ معیار کو پورا کیے بغیرجاری کیے تھے۔
عدالتی حکم نامے میں عمرفاروق ظہور کے وکیل کے دلائل کو نوٹ کیا گیا کہ خاندانی معاملے کو معاملات کی قیادت کرنے والے افراد کی طرف سے دباؤ ڈالنے پر فوجداری کارروائی میں تبدیل کردیا گیا تھا، جبکہ مؤکل سفیر ہے، لائبیریا کے سفارت خانے کے ذریعے ان کی خدمات کو یقینی بنائے بغیر کوئی کارروائی نہیں کی جا سکتی تھی۔
دلچسپ حقیقت یہ تھی کہ ایف آئی اے نے بھی انہی وارنٹس کی بنیاد پر انٹرپول سے عمرفاروق کے ریڈ وارنٹس حاصل کیے تھے۔
لاہور ہائیکورٹ میں دائر ایک اور درخواست میں عدالت نے عمر فاروق کا نام ای سی ایل میں ڈالنے اور ریڈ نوٹس جاری کرنے کا عمل معطل کرد
یا تھا۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے یہ حکم صرف ای سی ایل کی حد تک تبدیل کردیا تھا۔
صوفیہ مرزا اورعمر فاروق کی تقریباً 15 سال کی جڑواں بیٹیاں زینب اور زنیرہ دبئی میں والد کے ساتھ مقیم ہیں جو کئی انٹرویوز میں والد کے ساتھ رہنے پر مطمئن ہونے کا اظہار کرچکی ہیں۔
رواں سال کے وسط میں عمر فاروق اور صوفیہ مرزا کے درمیان ہونے والے ایک غیر مصدقہ معاہدے کی کاپی بھی میڈیا پر سامنے آئی جس کے مطابق سابق شوہر نے بچیوں کی حوالگی کیلئے صوفیہ مرزا کو 50 لاکھ روپے ادا کیے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ صوفیہ مرزا نے رضا مندی سے بچیاں سابق شوہر کے حوالے کیں۔ یہ معاہدہ 2007ء میں دو گواہوں کی موجودگی میں کیا گیا تھا۔
بعد ازاں نجی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے عمر فاروق کا کہنا تھا کہ صوفیہ نے شہزاد اکبر ( سابق وزیراعظم عمران خان کے سابق مشیراحتساب جن کا ذکر عمرفاروق نے گزشتہ رات انٹرویو میں بھی کیا کہ گھڑی کی فروخت سے متعلق پیشکش انہوں نے کی تھی) کے ساتھ مل کر صوفیہ مرزا نے ان کے خلاف جعلی مقدمات بنائے، شہزاد اکبر کے بھائی اور مرحوم ڈاکٹر رضوان میرے پیچھے لگ گئے، مجھ سے کہا لین دین کرلو معاملات حل کرادیں گے۔
صوفیہ اور ظہور کے درمیان کیس سپریم کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ میں جاری ہے۔
کیس کی تحقیقات کے حوالے سے ایف آئی اے کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ایجنسی کی نئی قیادت کسی بھی قسم کی زیادتی میں ملوث نہیں ہے اور تمام مقدمات کو میرٹ پر نمٹا رہی ہے۔
فاروق کے وکیل کے مطابق ایف آئی اے کے خلاف قواعد کے خلاف کارروائی کا مقدمہ شروع کیا جاچکا ہے اور 23 مئی کو درخواست دائر کی گئی تھی۔
فاروق ظہور کے وکیل کا کہنا تھا کہ عدالتی حکم سے ظاہر ہے کہ ایف آئی اے کی فاروق سے ذاتی ٹسل ہے اور صوفیہ مرزا کی ملی بھگت سے اکبر کی ہدایت پر وزارت داخلہ نے ان کے خلاف بدنیتی پر مبنی مہم چلائی تھی۔ ایف آئی اے کو ظہور پر حملے کے لیے ایسے کیسز میں استعمال کیا گیا جو پہلے ہی بند تھے اور جن میں ظہور کو ثابت کیا گیا تھا۔