افغانستان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ نے ججوں کو حکم دیا ہے کہ وہ شرعی قوانین کے ان پہلوؤں کو مکمل طور پر نافذ کریں جن میں سرعام پھانسی، سنگسار، کوڑے اور چوروں کے اعضاء کاٹنا شامل ہیں۔
ذبیح اللہ مجاہد نے اتوار کو ٹوئٹر پر جاری پیغام میں بتایا کہ ہیبت اللہ اخوندزادہ کی طرف سے یہ ”لازمی“ حکم قاضیوں کے ایک گروپ سے ملاقات کے بعد جاری کیا گیا۔
افغانستان کے ”خفیہ“ لیڈر اخوندزادہ کی گزشتہ سال اگست میں طالبان کے اقتدار میں واپسی کے بعد سے عوامی سطح پر فلم بندی یا تصویر کشی نہیں کی گئی ہے۔ اخوندزادہ تحریک کی جائے پیدائش اور روحانی مرکز قندھار سے حکم ناموں کے ذریعے حکمرانی کرتے ہیں۔
طالبان نے اپنے 1996 سے 2001 کے اقتداری دور میں کی جانے والی سخت حکمرانی کے ایک نرم ورژن کا وعدہ کیا تھا، لیکن آہستہ آہستہ حقوق اور آزادیوں پر پابندی لگانی شروع کردی۔
ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے بتایا کہ اخوندزادہ نے حکم دیا ہے کہ ”چوروں، اغوا کاروں اور بغاوت کرنے والوں کی فائلوں کا بغور جائزہ لیں۔“
اخوندزادہ نے کہا کہ ”وہ فائلیں جن میں حدود اور قصاص کی تمام شرعی شرائط پوری کی گئی ہیں، آپ ان پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔ یہ شریعت اور میرا حکم ہے جو واجب ہے۔“
عالیقدر امیرالمؤمنین در یک نشست با قاضیان:
ــ دوسیه های دزدان، اختطافچیان و فتنه گران را به گونه دقیق برسی نماید.
ــ آن دوسیه ها که در آن تمام شرائط شرعی حد وقصاص تکمیل شده باشد، شما مکلف هستید که درآن حدود و قصاص را عملی نماید،
زیرا این حکم شریعت و امر من می باشد که واجب است.— Zabihullah (..ذبـــــیح الله م ) (@Zabehulah_M33) November 13, 2022
حدود سے مراد ایسے جرائم ہیں جن کے لیے، اسلامی قانون کے تحت، بعض قسم کی سزائیں لازمی ہیں، جبکہ قصاص کا ترجمہ ”بدلے“ کے طور پر ہوتا ہے، مثال کے طور پر آنکھ کے بدلے آنکھ یا جان کے بدلے جان۔
حدود کے جرائم میں زنا، کسی پر جھوٹا الزام لگانا، شراب پینا، چوری، اغوا، ڈکیتی، ارتداد اور بغاوت شامل ہیں۔
قصاص دیگر چیزوں کے علاوہ قتل اور جان بوجھ کر چوٹ پہنچائے جانے کے بدلے کا احاطہ بھی کرتا ہے، لیکن یہ متاثرین کے اہل خانہ کو سزا کے بدلے معاوضہ قبول کرنے کی بھی اجازت دیتا ہے۔
اسلامی اسکالرز کا کہنا ہے کہ حدود کی سزا کا باعث بننے والے جرائم کے لیے بہت زیادہ ثبوت کی ضرورت ہوتی ہے، بشمول، زنا کے معاملے میں اقرار کرنا، یا چار بالغ مرد مسلمانوں کا گواہ ہونا۔
خواتین نے پچھلے 15 مہینوں میں مشکل سے حاصل کیے گئے حقوق کو ختم ہوتے دیکھا ہے، اور انہیں تیزی سے عوامی زندگی سے باہر دھکیلا جارہا ہے۔
زیادہ تر سرکاری ملازم خواتین اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھی ہیں، یا گھر میں رہنے کے لیے انہیں پیسے دیے جا رہے ہیں۔ جبکہ خواتین کو بھی مرد رشتہ دار کے بغیر سفر کرنے سے روک دیا گیا ہے اور گھر سے باہر نکلتے وقت انہیں برقع یا حجاب سے خود کو ڈھانپنے کی شرط عائد کی گئی ہے۔
گزشتہ ہفتے طالبان نے خواتین کے پارکوں، تفریحی مقامات، جموں اور عوامی حماموں میں جانے پر بھی پابندی عائد کر دی تھی۔