یہ ریکارڈ پہلے بھی جنوبی کوریا کے پاس ہی تھا مگر اب وہاں شرح پیدائش مزید کم ہوگئی،رپورٹ
سیول, 2018 کے ڈیٹا کے مطابق جنوبی کوریا میں فی خاتون شرح پیدائش ایک بچے سے کم تھی مگر 24 اگست کو جاری اعدادوشمار کے مطابق یہ مزید کم ہوکر 08.1 فیصد پر پہنچ گئی ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق یہ مسلسل چھٹی بار ہے جب خواتین میں شرح پیدائش کو کم ریکارڈ کیا گیا۔اس کے مقابلے میں ترقی یافتہ ممالک میں اوسط شرح پیدائش 1.6 فیصد ہے۔
کسی ملک کو آبادی ایک ہی سطح پر رکھنے کے لیے فی جوڑا کم از کم 2.1 فیصد شرح پیدائش کی ضرورت ہوتی ہی(اگر وہاں سے لوگ نقل مکانی نہ کررہے ہوں تو)۔آرگنائزیشن فار اکنامک کو آپریشن اینڈ ڈویلپمنٹ (او ای سی ڈی) کے مطابق گزشتہ 6 دہائیوں کے دوران دنیا بھر میں شرح پیدائش میں نمایاں کمی آئی ہے۔مگر جنوبی کوریا میں یہ اثر سب سے زیادہ دیکھنے میں آیا جہاں 1970 کی دہائی میں فی خاتون شرح پیدائش اوسطا 4 بچوں کی تھی۔
آبادی میں کمی سے جنوبی کوریا کو مختلف مسائل کا سامنا ہو رہا ہے جیسے پنشن اور طبی سہولیات کے لیے اخراجات بڑھ گئے ہیں جبکہ نوجوانوں کی آبادی کم ہونے سے افرادی قوت کی کمی معیشت پر اثرانداز ہو رہی ہے۔ماہرین نے 2021 کے اعداد وشمار کو مدنظر رکھتے ہوئے بتایا کہ طرز زندگی کے بڑھتے اخراجات ، گھروں کی قیمتوں میں اضافے اور کووڈ وبا ایسے عناصر ہیں جن سے جوڑوں میں بچوں کے حصول کی حوصلہ شکنی ہوئی۔سیاستدان عرصے سے جانتے ہیں کہ اس مسئلے کا سامنا ہوگا مگر وہ اس پر قابو پانے میں ناکام رہے۔جنوبی کورین خواتین میں تعلیم کی شرح بہت زیادہ ہے اور وہ کیرئیر یا بچوں میں سے کیرئیر کو ترجیح دیتی ہیں۔