آزادی صحافت: آج بھی صحافی تاریک راہوں میں مارے جارہے ہیں مولوی محمد باقر نے بطور اردو صحافت کے پہلے صحافی جام شہادت نوش کیا

پاکستان سميت دنيا بھر ميں زادي صحافت کا مقصد دنيا ميں صحافت کو فروغ دينا ہے۔۔۔ آج بھي صحافی تاريک راہوں ميں مارے جا رہے ہيں۔۔ صحافت کو رياست کاچوتھا ستون قراردیا گیا ہے۔۔ 1875ء سے لے کر آج تک ہزاروں صحافی مارے جاچکے ہیں۔۔ مولوی محمد باقر نے بطور اردو صحافت کے پہلے صحافی جام شہادت نوش کیا۔

مولوی محمد باقر نے57 سال کی عمر میں ”دہلی اردو اخبار“ نکلا۔ جو ہفت روزہ تھا۔۔ جس نے انگریز سامراج کے خلاف قلمی جہاد کیا۔۔ یہ اردو کا لیتھو اساس اولین مطبوعہ اخبار اور اپنے وقت کا ایک عجوبہ عظیم تھا۔ اس اخبار میں شیخ ابراہیم ذوق، بہادر شاہ ظفر، مرزا غالب، حافظ غلام سول، مرزا محمد علی بخت مرزا، حیدر شکوہ، مرزا نورالدین کے کلام شائع ہوتے تھے۔ مولوی محمد باقر نے1857ء کی بغاوت کا آنکھوں دیکھا حال شائع کیا۔ اس وقت انگریز حکمرانوں کے خلاف ایک تنقیح آمیز اشتہارچھاپا جسے جامع مساجد کے دروازوں اور کئی نمایاں مقامات پر چسپاں کیا گیا۔ مولوی باقر نے اس اشتہار کو اپنے اخبار میں بھی شائع کیا۔ جس میں اسلام اور مسلمانوں سے متعلق اہانت آمیز الفاظ استعمال کئے گئے تھے۔ مولوی محمد باقر نے اس اشتہار کا دندان شکن جواب دیا۔ اس طرح وہ حاکم انگریزوں کی نگاہوں میں کھٹکنے لگے۔ مولوی محمد باقر نے قلمی نام سے بھی ایسے مضامین اپنے اخبار میں شائع کئے جس نے ہندوستانیوں کے حوصلے بلند کئے اور فرنگیوں کو بوکھلاہٹ کا شکار کیا۔ مولوی محمد باقر کو ستمبر1875ء کو گرفتارکرلیا گیا اور فرنگی جاسوسی محکمہ کے انچارج کیپٹن ہڈسن کے سامنے پیش کیا گیا جس کے حکم پر انہیں 16؍ستمبر1875ء کو دہلی دروازہ کے باہر خونی دروازہ کے سامنے میدان میں توپ کے گولے سے شہید کردیا گیا۔ 77سالہ مولوی محمد باقر اردو کے پہلے صحافی تھے جنہوں نے جام شہادت نوش کیا۔

ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے تیرے ہاتھوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم نیم تاریک راہوں میں مارے گئے

سولیوں پر ہمارے لبوں سے پرے تیرے ہونٹوں کی لالی لپکتی رہی تیری زلفوں کی مستی برستی رہی تیرے ہاتھوں کی چاندی دمکتی رہی جب گھلی تیری راہوں میں شامِ ستم ہم چلےآئے لائے جہاں تک قدم لب پہ حرفِ غزل دل میں قندیلِ غم اپناغم تھا گواہی تیرے حُسن کی دیکھ قائم رہے اس گواہی پہ ہم ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

نارسائی اگر اپنی تقدیر تھی تیری اُلفت تو اپنی ہی تدبیر تھی کس کو شکوہ ہے گر شوق کے سلسلے ہجر کی قتل گاہوں سے سب جاملے

قتل گاہوں سے چُن کر ہمارے علم اور نکلیں گے عشاق کے قافلے جن کی راہِ طلب سے ہمارے قدم مختصر کر چلے درد کے فاصلے کر چلے جن کی خاطر جہاں گیر ہم جاں گنوا کر تری دلبری کا بھرم ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے (فیض احمد فیض)

1875سے اب تک ہزاروں صحافی تاریک راہوں میں مارے جا چکے ہیں۔۔۔ صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس (IFJ) نے اپنی ایک نئی رپورٹ میں کہا ہے کہ پچھلے25 سال کے دوران دنیا بھر میں اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران کم ازکم بھی2297صحافی اور میڈیا ملازمین ہلاک ہوچکے۔ رپورٹ کے مطابق صحافیوں کی ہلاکتوں سے متعلق اعداد و شمار جمع کرنے کا کام 1990ء میں شروع کیا تھا۔ پہلے ہی سال ہلاکتوں کی تعداد40رہی۔ پھر صحافیوں کی ہلاکتوں کے واقعات میں تیزی آگئی کہ 2010ء سے لے کر آج تک سالانہ 100 صحافی مارے جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے صحافیوں کے لیے حالات کار بہتر اور محفوظ بنانے کے وعدوں کے باوجود اس شعبے سے تعلق رکھنے والوں کو دنیا کے بے شمار ملکوں میں خراب ہوتے ہوئے حالات کار کا سامنا ہے۔ صحافیوں کے قاتل مختلف ملکوں میں نہ صرف سزاؤں سے باآسانی بچ جاتے ہیں بلکہ میڈیا کارکنوں کو مسلح کارروائیوں کے لیے ”نرم اہداف“ بھی سمجھا جاتا ہے ۔

رپورٹزود آؤٹ بارڈرز کی ایک رپورٹ کے مطابق سال2010 میں پاکستان آزادی صحافت کے معاملے میں دنیا کے178 ممالک میں 151 ویں نمبر پر تھا اور صحافتی سلامتی کے حوالے سے بھی پاکستان دنیا کا ایک خطرناک ملک تصور کیا جاتا ہے۔۔ سال 2010 میں 16 صحافی دوران فرائض اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

پاکستان میں گزشتہ پندرہ برس میں115 صحافیوں اور میڈیا کارکنوں کو قتل کیا گیا۔۔۔ گزشتہ دہائی میں پاکستان کے نو آموز آزاد میڈیا کو بہت سی مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ جن میں بہترین معاشی حالات سے بدترین معیشیت تک، مارشل لاء سے غیرمستحکم جمہوریت تک، ملکی تاریخ کی دو بدترین قدرتی آفات،3 بڑے سیاسی قتل اور بڑھتی ہوئی دہشتگردی،انتہا پسندی پر رپورٹنگ کی ذمہ داریاں شامل ہیں۔

گذشتہ دس برس میں پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا نے تیزی سے ترقی کی ہے۔2002ء میں صرف 2 ٹیلی ویژن اسٹیشنز تھے۔۔ آج ملک میں 90 سے زائد ٹی وی اسٹیشنز اور 135 پرائیویٹ ایف ایم چینلز کام کر رہے ہیں،2 ہزار کے مقابلے میں آج 25،000صحافی ہیں۔ جو40 سے70ملین لوگوں تک معلومات کا ذریعہ ہیں۔ لیکن ان صحافیوں کی باقاعدہ تربیت نہ ہونے کے باعث صحافت کے معیار پر برا اثر پڑا۔۔ پاکستان میں صحافی حکومت، سیاسی جماعتوں، عسکریت پسندوں اور این جی اوز کے دباؤ میں رپورٹنگ کر رہے ہیں۔

ان تمام مسائل کے باوجود پاکستان کا میڈیا ایک آزاد میڈیا تصور کیا جا تا ہے۔۔ صحافیوں کو وسائل مہیا کرنے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان، خیبرپختونخوا اور فاٹا میں رپورٹنگ کے لیے صحافیوں کو قاعدہ ٹریننگ کی ضرورت ہے۔ آج آزاد ميڈيا معاشرے کي پائيدار ترقي کے ليے ناگزير ہے ایسی طرح صحافی کا معاشی طور پر بھی مستحکم ہونا،اس کی جان کی حفاظت اور اس کی رہائش سے لے کر دیگر مسائل کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں