پاکستان کا نام فیٹف کی گرے لسٹ سے خارج پاکستان کو 2018 میں پاکستان کو گرےلسٹ میں شامل کیا تھا

پیرس  عالمی منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت پر نظر رکھنے والے ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے پاکستان کا نام گرے لسٹ سے خارج کردیا۔

فیٹف نے پاکستان کے اقدامات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ملک کو گرے لسٹ سے خارج کردیا ہے۔

فنانشل ایکشن ٹاکس فورس کا دو روزہ اجلاس پیرس میں ہوا، جس میں پاکستانی وفد نے وزیر مملکت برائے خارجہ کی قیادت میں شرکت کی۔

جون میں ہونے والے فیٹف کے گزشتہ اجلاس میں پاکستان کو اکتوبر تک گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

فیٹف نے پاکستان کے اقدامات سے مطمئن ہوکر اس کے جائزے کے لئے اپنی ٹیم بھیجی تھی جہاں کورونا کی صورتحال کو بھی مانیٹر کیا گیا۔

فیٹف کے صدر ڈاکٹر مارکس کا پچھلے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں کہنا تھا کہ فیٹف پاکستان کے تمام اقدامات سے مطمئن ہے، پاکستان نے ایک پُرامن اور قابل بھروسہ ملک ہونے کا ثبوت دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ٹیرر فنانسنگ انویسٹیگیشن اور پراسیکیوشن میں بہتری آئی ہے، منی لانڈرنگ کی تحقیقات میں بھی پیش رفت دیکھی گئی ہے جبکہ دہشت گردوں کی لسٹ میں شامل افراد کے خلاف کارروائی بھی کی گئی ہے۔

گرے لسٹ سے اخراج کا پاکستان پر اثر

پاکستان کو 2018 میں ”اسٹریٹجک انسداد دہشت گردی کی مالی معاونت سے متعلق کمیوں“ کی وجہ سے فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔ ایف اے ٹی ایف نے ملک کو وسیع پیمانے پر اصلاحات کا ایک پروگرام دیا تھا۔

گرے لسٹ سے اخراج کے بعد پاکستان کی ساکھ بنیادی طور پر بہتر ہوگی اور دہشت گردوں کی مالی معاونت پر عالمی برادری سے کلین چٹ بھی ملنے کا امکان ہے۔

ماہر اقتصادیات اور سٹی گروپ کے سابق بینکر یوسف نظر نے روئٹرز کو بتایا کہ اگرچہ اس کا مجموعی طور پر ملک کی جدوجہد کرتی معیشت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، لیکن اس سے پاکستان میں عالمی لین دین کی جانچ پڑتال کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔

موڈیز کی جانب سے ملک کی خودمختار کریڈٹ ریٹنگ میں کمی کے بعد ایف اے ٹی ایف کی فہرست سے نکالے جانے سے پاکستانی ساکھ کو مزید فروغ ملے گا۔ اس سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کے جذبات میں بھی بہتری آئے گی، جو براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے نقطہ نظر سے اہم ہے۔

گرے لسٹ میں کون ہوتا ہے؟

فیٹف کا کہنا ہے کہ ”گرے لسٹ“ میں ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ مالیاتی اداروں کی طرف سے کوئی اضافی مستعدی کے اقدامات کیے جائیں، لیکن باڈی ایسے ممالک سے نمٹنے کے دوران متعلقہ خطرات پر غور کرنے کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔

اگر ملک کو ”گرے لسٹ“ سے ”بلیک لسٹ“ یا ”ہائی رسک“ میں ڈال دیا جاتا ہے تو ایف اے ٹی ایف بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے اپیل کر سکتا ہے کہ وہ مذکورہ ممالک میں اپنی سرگرمیاں بند کر دیں اور حکومتوں پر مالی پابندیاں لگانے کے لیے دباؤ ڈالیں۔

اس وقت ”بلیک لسٹ“ میں ایران اور شمالی کوریا شامل ہیں۔ کچھ سال پہلے پاکستان کو ”بلیک لسٹ“ میں ڈالے جانے کے قریب ہونے کی خبریں بھی سامنے آئی تھیں۔

پاکستان کو گرے لسٹ سے کیوں نکالا گیا؟

فہرست سے نکلنے پر اس چار سالہ اصلاحاتی عمل کا خاتمہ ہوگا جس کے لیے پاکستان کے مالیاتی نظام میں خاص طور پر منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کو کنٹرول کرنے والے قوانین میں دور رس تبدیلیوں کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔

پاکستان کو 2018 میں ایف اے ٹی ایف کی جانب سے ایک ایکشن پلان دیا گیا تھا تاکہ قانون سازی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مالیاتی اداروں کے درمیان ہم آہنگی کی تنظیم نو کے ذریعے انسداد دہشت گردی کی مالی معاونت سے متعلقہ خامیوں کو دور کیا جا سکے۔

ایف اے ٹی ایف نے آخری بار کہا تھا کہ پاکستان نے اپنے ایکشن پلان میں تمام آئٹمز مکمل کر لیے ہیں، جن میں سے ایک اقوام متحدہ کے نامزد عسکریت پسند گروپوں کے سینئر رہنماؤں کے خلاف تحقیقات اور قانونی کارروائیوں کا مظاہرہ کرنا تھا۔

وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر نے فیٹف کے اعلان کے فوراً بعد ایک پریس کانفرنس میں اس فیصلے کا خیرمقدم کیا۔

عسکریت پسند گروپوں کے خلاف کریک ڈاؤن

“ واشنگٹن میں واقع ولسن سینٹر کے تھنک ٹینک میں ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین نے روئٹرز کو بتایا کہ ”پاکستان کی جانب سے حالیہ مہینوں میں حافظ سعید اور ساجد میر کے لیے نئی سزاؤں کا اعلان کام کرگیا۔“

دونوں اشخاص پر مبینہ طور پر پڑوسی ملک بھارت میں 2008 کے ممبئی حملوں میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔

سٹی بینک کے یوسف نظر نے کہا کہ بھارت مخالف عسکریت پسند گروپوں سے منسلک افراد کو جیل، جرمانے اور اثاثوں کو ضبط کرنے کے لیے پاکستان کی تازہ ترین کارروائیاں اس فہرست سے نکالے جانے کی اہم وجوہات ہیں۔

خیال رہے کہ 28 فروری 2008 کو پاکستان کو فیٹف کی گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تھا اور اہداف حاصل کرنے کے لئے پاکستان کو ایشیا پیسیفک گروپ کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔

اس کے علاوہ جون 2010 میں مثبت پیش رفت پر پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاکس فورس نگرانی کی فہرست سے نکال دیا گیا تھا تاہم 16 فروری 2012 میں پاکستان کو دوبارہ گرے لسٹ میں شامل کردیا گیا تھا۔

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں