ایم نائن موٹروے؛785 کنال کی سرکاری اراضی پر بحریہ ٹاؤن سمیت دو ہاؤسنگ سوسائٹیز کے قبضہ کا انکشاف
آڈیٹر جنرل پاکستان کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ ایم نائن موٹروے کے ساتھ 785 کنال کی سرکاری زمین پر بحریہ ٹاؤن سمیت 2 ہاؤسنگ سوسائٹیاں قابض ہیں۔ آڈیٹر جنرل پاکستان کی رپورٹ کے مطابق بحریہ ٹاؤن سمیت 2 ہاؤسنگ سوسائٹیوں نے کراچی حیدر آباد ایم نائن موٹروے سے ملحقہ 785 کنال سرکاری زمین پر قبضہ کر رکھا ہے۔
واضح رہے کہ ایم نائن موٹروے چھ لین پر مشتمل 136 کلو میٹر کی طویل سڑک ہے جو کراچی اور حیدر آباد کو آپس میں ملاتی ہے۔ 2015 اور 2018 کے درمیان موجودہ سپر ہائی وے کو توسیع دے کر تعمیر کیا گیا۔ یہ موٹروے کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم سے شروع ہونے والی تجارتی ٹریفک کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے۔ آڈٹ رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) کی 491 کنال زمین پر بحریہ ٹاؤن کراچی سمیت 2 ہاؤسنگ سوساٹئیوں نے 294 کنال اراضی پر قبضہ کر رکھا ہے۔ بحریہ ٹاؤن کراچی نے 491 کنال اراضی کو بغیر اجازت کے لیز معاہدے کے بغیر انٹرچینج کی تعمیر کے لیے استعمال کیا جبکہ ڈی ایچ اے سٹی نے بھی تقریباً 3 کلومیٹر کی سرکاری زمین پر بغیر اجازت انٹرچینج اور سڑک تعمیر کی۔
رپورٹ کے مطابق آڈیٹرز نے مئی، جون 2021 کے دوران اس معاملے کی نشاندہی کی تھی لیکن این ایچ اے نے کوئی جواب نہیں دیا اور بار بار کی درخواستوں کے باوجود آڈیٹر جنرل نے جانچ پڑتال کے لیے کوئی اجلاس نہیں بلایا۔ آڈیٹرز نے این ایچ اے کی پالیسی کےمطابق واجبات کی وصولی کے علاوہ بےضابطگی کے ذمہ داران کے تعین کے لیے تحقیقات کی سفارش کی۔
رپورٹ کے مطابق این ایچ اے کی پالیسیوں کی روشنی میں اراضی حقوق کے تحفظ اور تجارتی استعمال کے لیے ریگولیٹری فریم ورک اور معیاری طریقہ کار (ایس او پیز) کا استعمال کیا جانا چاہیے۔ جس میں کمرشلائزیشن، اراضی حقوق کا تحفظ، تجاوزات کا خاتمہ، فلنگ اسٹیشنز، ہوٹلز، موٹلز، ریسٹورنٹس، کارخانے، نرسری، دکانیں، بل بورڈز اور یوٹیلیٹی لائینز بچھانے کے حوالے سے معاملات شامل ہیں۔
بحریہ ٹاؤن کراچی نے فروری 2020 میں ایم نائن موٹروے پر اپنا انٹرچینج شروع کیا اور 8 کلومیٹر کے اس منصوبے میں 3 انڈر پاسز، ایک سے زیادہ سلپ روڈ، سڑکیں اور سروس روڈ شامل ہیں۔
سپریم کورٹ نے ضلع ملیر کی اراضی کے لیے بحریہ ٹاؤن کراچی کی جانب سے 460 ارب روپے کی پیشکش قبول کی تھی اور قومی احتساب بیورو (نیب) کو 3 سال قبل اس کے خلاف ریفرنس دائر کرنے سے روک دیا تھا۔ پی اے سی نے رواں سال کے آغاز پر نیب چیئرمین سے پراپرٹی ٹائیکون پر غیر ضروری احسان کرنے پر برہمی کا اظہار کیا تھا اور انہیں بحریہ ٹاؤن ہاؤسنگ پروجیکٹ سے 460 ارب روپے جرمانہ ادا کرنے کی اجازت دی تھی جو برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کی جانب سے پاکستان کو واپس دیئے گئے تھے۔ نیب نے حال ہی میں سابق مشیر برائے احتساب مرزا شہزاد اکبر اور وفاقی کابینہ کے سابق اراکین کو مذکورہ تحقیقات کے سلسلے میں طلب کیا۔