”یوکرین امن سمٹ“ میں پاکستان کی شرکت مشکوک، فریق نہ بننے کا فیصلہ پاکستان نے ایک نازک توازن برقرار رکھنے کے لیے احتیاط سے تیار کی گئی پالیسی اپنائی ہوئی ہے

یوکرین پر روسی حملے کے دو سال بعد پاکستان کو اب ایک اور سفارتی چیلنج کا سامنا ہے۔ اسلام آباد کو پہلی بار روس یوکرین تنازعے پر اس طرح کی بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے، تاہم، پاکستان کی اس امن کانفرنس میں شرکت مشکوک نظر آرہی ہے، کیونکہ ملک نے فریق نہ بننےکا فیصلہ کیا ہے۔

پاکستان 15 اور 16 جون کو سوئٹزرلینڈ میں ہونے والی یوکرین امن سربراہی کانفرنس میں نام نہاد گلوبل ساؤتھ کے ممالک میں شامل ہے۔

دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے گزشتہ ہفتے ہفتہ وار بریفنگ میں اس بات کی تصدیق کی تھی کہ پاکستان کو سربراہی اجلاس میں مدعو کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ دعوت نامہ زیر غور ہے۔

تاہم، مقامی انگریزی اخبار نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ پاکستان کی جانب سے ”غیرجانبداری“ کو برقرار رکھنے کی کوششوں کے تحت امن سربراہی اجلاس میں شرکت نہ کئے جانے کا امکان ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چونکہ روس کو سربراہی اجلاس میں مدعو نہیں کیا گیا تھا، اس لیے یہ اجلاس مفید ثابت نہیں ہو سکتا۔

تاہم، پاکستان کی جانب سے اجلاس میں شرکت پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔

27 ٹن دھماکہ خیز مواد سے لیس مال بردار جہاز بھارت سے اسرائیلی بندرگاہ پہنچ گیا

اس اجلاس میں چین کو بھی دعوت دی گئی ہے، لیکن بیجنگ پہلے ہی اس معاملے سے دور رہنے کا فیصلہ کر چکا ہے۔

بیجنگ میں حکام نے بھی روس کو اجلاس میں مدعو نہ کرنے پر اس عمل کی ساکھ پر سوال اٹھایا، جو کہ تنازعے کا ایک اہم فریق ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان عام طور پر ایسے اہم بین الاقوامی اور علاقائی معاملات پر چین سے اشارے لیتا ہے۔ تاہم مبصرین کا خیال ہے کہ اگر مغربی ممالک خاموشی سے پاکستان کو کانفرنس میں شرکت کے لیے آمادہ کر رہے ہیں تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہو گی۔

فروری 2022 میں جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان ماسکو میں تھے۔ ان کا دورہ، اگرچہ صدر ولادیمیر پوتن کے فیصلے سے غیرمتعلق ہے، لیکن مغرب سمیت کئی مملاک میں اس پر سوال اٹھایا گیا۔

عمران خان نے بعد میں اپنے ماسکو دورے کو عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے نکالے جانے کی ایک اہم وجہ قرار دیا۔

پاکستان نے ایک نازک توازن برقرار رکھنے کے لیے احتیاط سے تیار کی گئی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔

پاکستان نے کبھی بھی یوکرین پر روسی حملے کی مذمت نہیں کی اور کئی مواقع پر اقوام متحدہ میں ماسکو کی مذمت کرنے کے امریکی حمایت یافتہ اقدامات سے پرہیز کیا ہے۔

اسی دوران پاکستان نے تنازعے کے وسط میں یوکرائنی وزیر خارجہ کی میزبانی کی اور انسانی امداد روانہ کی۔

روس کا میزائل اور ڈرونز سے یوکرینی توانائی تنصیات پر حملہ، بنیادی ڈھانچہ تباہ

اخباری رپورٹ میں کہا گیا کہ اطلاعات تھیں پاکستان نے خاموشی سے تیسرے فریق کے ذریعے یوکرین کو ہتھیار فراہم کیے ہیں۔ یوکرین اور پاکستان دونوں نے ایسی خبروں کی سختی سے تردید کی ہے۔

واضح رہے کہ روس یوکرین تنازعے نے پاکستان کی سفارتی صلاحیتوں کا امتحان لیا ہے۔

دریں اثنا، سوئٹزرلینڈ میں ہونے والی مذکورہ سربراہی کانفرنس، جو یوکرین میں امن کے عمل کی راہ ہموار کرنے کی امید رکھتی ہے، اس میں 50 سے زائد ممالک کے وفود آئے ہیں۔

غیر جانبدار سوئس حکومت دنیا کے مختلف حصوں سے وسیع البنیاد ٹرن آؤٹ کی خواہاں ہے اور اس کیلئے 160 دعوت نامے بھیجے گئے تھے۔

سوئٹزرلینڈ نام نہاد گلوبل ساؤتھ کے ساتھ ساتھ چین کے مزید ممالک کو سائن اپ کرنے پر آمادہ کرنا چاہتا ہے۔

جنوبی امریکہ، افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے ممالک ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے تصدیق کی کہ وہ آئیں گے۔

تقریباً نصف ممالک جنہوں نے کہا کہ وہ حصہ لیں گے غیر یورپی تھے، اور شرکاء کی فہرست آخری لمحات تک بدلتی رہے گی۔

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں