عرب ممالک کی جانب سے سرمایہ کاری کے اعلانات پر عمل درآمد کیوں نہیں ہوتا؟حکومتی ادارہ جاتی نظام سرمایہ کاری کے معاہدوں کو عملی شکل میں تبدیل ہونے نہیں دیتا اور نہ ہی پاکستان کے پاس متبادل پلان اور منصوبے ہیں جن میں بیرونی سرمایہ کاروں کی دلچسپی ہو. ماہرین

2019 میں سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے دورہ پاکستان کے دوران 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کیا تھاجس پرعمل درآمد نہیں ہوسکا جبکہ اسی سال بھارت کے دورے کے دوران سعودی ولی عہد نے متحدہ عرب امارات کی شراکت سے 44ارب ڈالرکی سرمایہ کاری سے آئل ریفائنری قائم کرنے اور دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تجارت کے لیے28ارب ڈالرکے معاہدے پر دستخط کیئے تھے جو تکمیل کے حتمی مراحل میں ہے

حکومت کا دعوی ہے کہ وہ معیشت کی بحالی بالخصوص ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے خصوصی اقدامات اٹھا رہی ہے اور وزیراعظم شہباز شریف دوست ممالک سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے خواہش مند ہیں متحدہ عرب امارات کے حالیہ دورے کے دوران یواے ای کے صدر شیخ محمد بن زاید النہیان نے پاکستان میں مختلف شعبوں میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی یقین دہانی کرائی ہے اس سے قبل سعودی عرب کے ساتھ پانچ ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری پیکج کو جلد مکمل کرنے پر اتفاق کیا

تاہم عرب ممالک کی جانب سے سرمایہ کاری کے اعلانات پر عمل درآمد دیکھنے میں انہیں آتا جبکہ یہی عرب ملک بھارت میں چند سالوں کے دوران کئی سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرچکے ہیںمعاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان دوست ممالک کی سرمایہ کاری کے ذریعے معاشی مشکلات سے نکلنا چاہتا ہے لیکن حکومتی ادارہ جاتی نظام سرمایہ کاری کے معاہدوں کو عملی شکل میں تبدیل ہونے نہیں دیتا اور نہ ہی پاکستان کے پاس متبادل پلان اور منصوبے ہیں جن میں بیرونی سرمایہ کاروں کی دلچسپی ہوپاکستان سرمایہ کاری بورڈ کے سابق چیئرمین ہارون شریف کہتے ہیں کہ پاکستان کے دوست خلیجی ممالک کی جانب سے سرمایہ کاری کے اعلانات پر عمل درآمد ممکن نہیں کیونکہ تیل پر انحصار کم کرنے کے لیے دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری چاہتے ہیں اور پاکستان ان کے لیے پرکشش جگہ نہیں ہے کیونکہ کاروباری آسانیاں نہ ہونے، بلند شرح سود ‘سیکورٹی مسائل اور کرپشن وہ بنیادی عوامل ہیں جو سرمایہ کاری کے اعلانات اور معاہدوں کو عملی شکل دینے میں مشکلات پیدا کرتے ہیں.

امریکی نشریاتی ادارے کے ساتھ گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ماضی میں گورننس اچھی نہ ہونے اور حکومتی اداروں کی عدم معاونت کے باعث سیاسی قیادت کے سرمایہ کاری کے یہ اعلانات صرف معاہدوں تک ہی محدود رہے ہیں ہارون شریف نے کہا کہ پاکستان کے خلیجی دوست ملکوں کے ساتھ روابط مالی امداد، زرِ مبادلہ کے ذخائر مستحکم رکھنے کے لیے ڈپازٹس، ادھار ادائیگیوں پر تیل کی فراہمی تک رہے ہیں جو کہ اب طویل سرمایہ کاری کی طرف بڑھانے کی جانب گامزن ہیں.

ماہرین کے مطابق کرپشن‘پالیسیوں کا تسلسل نہ ہونا‘صنعتوں اور زراعت کا زوال یہ سارے عوامل سرمایہ کاری کے لیے ٹھیک نہیں ‘انہوں نے کہا کہ اگر کوئی سرمایہ کار بھولے سے پاکستان آ بھی جائے تو اعلی حکام سے لے کر نچلی سطح تک کرپشن دیکھ کر وہ بھاگ جاتا ہے کیونکہ اس سے زمین کے حصول سے لے کر بجلی‘پانی‘گیس وغیرہ کے کنکشنوں تک پر رشوت طلب کی جاتی ہے‘اس کے مقابلے میں بھارت ‘بنگلہ دیش اور اب ابھرتی ہوئی نئی منڈی افریقہ تک میں سرمایہ کاروں کے لیے سہولتیں ہیں جبکہ ہمارے ہاس ایئرپورٹ پر اترتے ہی اس کا واسط کرپشن سے پڑتا ہے.

ماہر معیشت ثاقب شیرانی نے گفتگو میں کہا کہ سعودی عرب، یو اے ای اور قطر کے ساتھ ماضی میں کیے گئے سرمایہ کاری کے معاہدے تاخیر کا شکار رہے ہیں اور سالوں بعد بھی عملی شکل اختیار نہیں کرسکے انہوں نے کہا کہ دوست ممالک پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے سنجیدہ ہیں لیکن مقامی مسائل کے سبب ان معاہدوں پر عمل درآمد نہیں ہوپاتا اور یہ صورتِ حال بدستور دکھائی دے رہی ہے.

ثاقب شیرانی نے کہا کہ سعودی عرب کی آئل ریفائنری اور قطر کو تین ایئر پورٹ حوالے کرنے کے منصوبے بات چیت کے باوجود کامیاب نہیں ہوسکے ہیں گزشتہ ماہ ہی سعودی وزیرخارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطح کے وفد نے پاکستان کا دورہ کیا تھا اس دورے میں اعلیٰ سطح کی ملاقاتوں کے باوجود کوئی معاہدہ طے نہیں پا سکا تھا جس کی بنیادی وجہ ہمارے سسٹم کی خرابیاں ہیں جنہیں ٹھیک کیئے بغیرسرمایہ کاری نہیں آسکتی.

ماہرین کا کہنا ہے کہ بیرونی سرمایہ کاری کے لیے اصلاحات درکار ہیں جس میں وقت لگے گا لہذا حکومت فوری بیرونی سرمایہ کاری کے لیے منافع بخش کمپنیوں کو شراکت داری کی دعوت دے ان کا کہنا ہے کہ حکومت غلط سمت میں جارہی ہے نجکاری کے ذریعے100ملین ڈالرکے اثاثے کو100ڈالر میں بیچ کر اسے سرمایہ کاری کہنا خودفریبی سے زیادہ کچھ نہیں ماضی میں پی ٹی سی ایل سمیت کئی اداروں کو ان کی ملکیت زمینوں سے بھی آدھی قیمت پر بیچا گیا جن سے چند سال فائدہ اٹھا کر سرمایہ کار ان اداروں کو آگے کسی کو بیچ کر چلتے بنے اب اس میں کس کس کے مفادات شامل تھے اس کا پتہ لگانا حکومتوں کا کام ہے.

ہارون شریف نے کہا کہ حکومت جب تک ماہر افراد کی خدمات حاصل کرتے ہوئے ادارہ جاتی نظام کو بہتر نہیں بناتی اس وقت تک”ایس آئی ایف سی“ اور بیرونی سرمایہ کاری کی کوششیں زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوں گی‘جبکہ ڈاکٹرصابر کا کہنا ہے کہ ”ماہرین“کے نام پر لاکھوں ڈالروں کی تنخواہوں اور مراعات پر جن لوگوں کو بلایا جاتا ہے وہ ہمارے اوسط درجے کے پروفیشنلزکا مقابلہ بھی نہیں کرسکتے چونکہ ان”ماہرین“کے ذریعے غیرملکی کمپنیوں کونوازنے کے ساتھ طاقتور لوگوں کے معاشی مفادات وابستہ ہوتے ہیں لہذا صرف جلد کی رنگت کو دیکھا جاتا ہے حالانکہ ہمارے اپنے ملک میں ان سے بہتر مشیر اور ماہرین موجود ہیں جو بیرون ممالک جاکر خدمات انجام دیتے ہیں.

انہوں نے کہا کہ اصل مسلہ کرپشن ہے ‘ہم آج تک غلامی کے دور کے لائسنس نظام کو چلارہے ہیں دنیا بھر میں آپ نے کوئی بھی فیکٹری لگانی ہے تو آپ کو کسی لائسنس کی ضرورت نہیں ہوتی ‘دوبئی ‘بھارت اور بنگلہ دیش کی مثالیں سبق ہیں ہمارے لیے کہ اگر کوئی شوگر مل لگانا چاہتا ہے تو اس کے لائسنس کی ضرورت کیوں؟شوگر مل میں ٹینک‘توپیں تو نہیں بن سکتیں وہاں شکر ہی بنے گی تو پرائیویٹ لمٹیڈ کمپنی بناکر کوئی شوگر مل کیوں نہیں لگا سکتا؟اس لیے کہ اس سے ہمیشہ کسی نہ کسی صورت اقتدار کے ایوانوں میں رہنے والے شوگرمافیا کے مفادات کو نقصان پہنچتا ہے اسی طرح امن وامان بہت اہم مسلہ ہے تو اگرہمارے حکمران حقیقتا سرمایہ کاری چاہتے ہیں تو اپنی ہی لوگوں کے خلاف آپریشن بند کرکے ایک بار تمام فریق بیٹھ کر بات کریں‘ملک کی خاطرعام معافی کا اعلان کرکے ان لوگوں سے بات کی جائے جنہوں نے ہتھیار اٹھائے ہیں اگلے بیس‘پچیس سال ضائع کرکے بھی بات ٹیبل پر ہی ہونا ہے توآج کیوں نہیں؟.

انہوں نے کہا کہ بلوچستان ‘سابقہ قبائلی علاقوں سمیت متاثرہ علاقوں میں حکومت پہلے مقامی سرمایہ کاری کو فروغ دے روزگار ہوگا اور غربت میں کمی آئے گی تو سوچ بھی بدلے گی ٹینکوں‘بندوقوں سے سوچ نہیں بدلی جاسکتی‘ان علاقوں کے رہنے والوں کو کوئی”اسٹیک“نہیں اور نہ ہی انہیں اسٹیک ہولڈر بنانے کی کوشش کی گئی ہے جب ان کے اپنے گھر‘بچوں کی تعلیم‘صحت کی سہولیات یا زرعات ہوگی تو وہ ”اسٹیک ہولڈر“ہونگے وہ لاہور‘کراچی ‘اسلام آباد یا دیگر شہروں کے لوگوں کی طرح غیرقانونی کام کرنے سے ڈریں گے کہ کسی غیرقانونی کاروائی میں ملوث ہونے سے ان کے گھربار اور کاروبار یا نوکریاں متاثرہونگی مگر اس پر آج تک کسی نے سوچا ہی نہیں.

انہوں نے کہا کہ کرپشن ہر جگہ ہے مگر ہمارے ہاں ساری حدیں پارکرچکی ہے کرپشن ‘پالیسیوںکے تسلسل اورسرمایہ کاری کے لیے اوپن پالیسی اپنائے بغیر ممکن نہیں کہ کوئی سرمایہ کار پاکستان کا رخ کرئے گا گزشتہ برس حکومت نے بیرونی سرمایہ کاری کے لیے اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) تشکیل دی تھی جس میں متعلقہ حکومتی اداروں کے علاوہ فوج کے سربراہ کو بھی شامل کیا گیا تھا سرمایہ کاری کونسل کے قیام کا مقصد دوست ممالک سے سرمایہ کاری کو آسان اور اس پر عمل درآمد یقینی بنانا تھا.

ہارون شریف نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ مقامی سرمایہ کاروں کی شراکت داری کے ذریعے بیرونی سرمایہ کاروں کو قابلِ عمل اور منافع بخش منصوبے پیش کرے ہارون شریف کہتے ہیں کہ بیرونی سرمایہ کاری کے لیے پاکستان کو فنگشنل اکنامک زون بنانا ہوں گے اور منافع بخش منصوبے سامنے لانا ہوں گے بیرونی سرمایہ کاری سے نئے منصوبے لگانے میں خاصا وقت درکار ہوتا ہے لہذا حکومت کو چاہیے کہ وہ پہلے سے موجود منافع بخش کمپنیوں میں بیرونی سرمایہ کاروں کو راغب کرے.

انہوں نے کہا کہ خلیجی دوست ممالک 2018 سے خراب معاشی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے پاکستان کی مالی معاونت کرتے رہے ہیں لیکن مالی مدد کی گنجائش شاید اب ختم ہو گئی ہے . انہوں نے کہا کہ اسی وجہ سے اب مالی معاونت کے بجائے صرف سرمایہ کاری پر بات ہو رہی ہے لیکن وہ پاکستان میں کسی بڑی سرمایہ کاری کے لیے پرامید نہیں ہیں کیوں کہ خطے کی صورتِ حال اور پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اس کی بڑی وجہ ہیں انہوں نے کہا کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا ممکنہ دورہ پاکستان ملتوی ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حکومت سرمایہ کاری کے حوالے سے سعودی حکام کو زیادہ راغب نہیں کرسکی ہے جو حکومتی اور اس کے معاشی منیجرزکی بہت بڑی ناکامی ہے واضح رہے کہ فروری 2019 میں سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان کے دوران سعودی عرب نے 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخط کیے تھے جن میں بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں ریفائنری لگانے کا معاہدہ بھی شامل تھا تاہم سرمایہ کاری کے یہ منصوبے تاحال پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکے ہیں.

فروری2019میں ہی بھارت کے دورے کے دوران سعودی ولی عہد نے بھارتی ریاست مہاراشٹراکے شہررتناگری میںسعودی آئل کمپنی ”آرمکو“ کے صرف ایک منصوبے کے لیے متحدہ عرب امارات کی شراکت سے 44ارب ڈالرکی سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھاجبکہ سعودی عرب اور بھارت کے درمیان باہمی تجارت کے لیے28ارب ڈالرکے معاہدے پر دستخط کیئے تھے جن میں آئل ریفائنری کا منصوبہ تکمیل کے قریب ہے ”آرمکو انڈیا“کی ویب سائٹ کے مطابق اس منصوبے میں بھارتی حکومت50فیصد کی شراکت دار ہے .

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں