بھارت کی پہلی مسلمان خاتون باؤنسر وائرل کیوں ہو رہی ہیں مہرالنسا نجی محفل اور سیلیبریٹیز کو سیکیورٹی فراہم کرتی ہیں

ویسے تو بھارت میں دلچسپ اور حیرت انگیز خبریں بے حد ہیں، تاہم کچھ ایسی ہوتی ہیں، جو کہ سب کی توجہ خوب سمیٹ لیتی ہیں۔

حال ہی میں بھارتی ریاست اتر پردیش سے تعلق رکھنے والی مہرالنساء شوکت نے سب کی توجہ حاصل کی ہے، جنہوں نے اپنے پروفیشن کے باعث مردوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق ساہارنپور سے تعلق رکھنے والے 35 سالہ خاتون بھارت کی پہلی خاتون باؤنسر بن گئی ہیں۔

بھارتی میڈیا سے بات چیت میں مہرالنساء بتاتی ہیں کہ ہم جب کبھی پڑھائی کرنے بیٹھتے تو میرے والد بجلی بند کر دیا کرتے تھے، تاکہ ہم پڑھ نہ سکیں، ان کا خیال تھا کہ اگر ہم پڑھ لکھ گئے تو ہم بھاگ جائیں گے اور اپنی پسند کے مرد سے شادی کر لیں گے۔

خاتون باؤنسر نے مزید بتایا کہ اس سب صورتحال میں میری والدہ نے مجھے بے حد سپورٹ کیا اور ہماری خاطر سب سے لڑ گئیں، یہاں تک کہ ہمیں اسکول میں تعلیم دلوانے کے لیے گاؤں والوں سے بھی لڑ گئیں۔

والدہ اس خوف میں مبتلا تھیں کہ جو حال دو بڑی بہنوں کا ہوا ہے، وہ حال بھی میرا ہی ہونے جا رہا ہے، یہی وجہ کہ والدہ میرے لیے لڑ رہی تھیں۔

دلی شہر کے مقامی کیفے ’حوض خاص ولیج‘ مین مہر النساء کام کرتی ہیں، جبکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ نجی محفل میں اور سیلیبریٹیز کو سیکیورٹی فراہم کرتی ہیں۔

اس سب میں وہ غیر قانونی ڈرگس کی شناخت، نشے میں دھت افراد سے لڑائی سمیت خواتین کی حفاظت سیکھ چکی ہیں۔

مہرالنسا کی زندگی 12 سال کی عمر میں تبدیل ہو گئی تھی جب وہ ٹائفائیڈ میں مبتلا ہو گئی تھیں، یہی وجہ تھی کہ ان کی شادی بھی نہ ہو سکی۔

جبکہ مہرالنسا کا اپنا کاروبار بھی ہے، وہ سیکیورٹی کی ایک آرگنائزیشن چلا رہی ہیں، جس کا نام ہے، ’مردانی باؤنسر اینڈ ڈالفن سیکیورٹی سروس پروائیٹ لمیٹڈ‘۔

جہاں وہ ڈھائی ہزار سے زائد افراد کو سیکیورٹی سروس فراہم کر رہی ہیں۔

دوسری جانب مہر النسا کے والد بھی اب بیٹی کی تعریف کرتے دکھائی دیتے ہیں، اس حوالے سے وہ اب اپنا نظریہ بھی بدل چکے ہیں۔

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں