وزیراعظم شہبازشریف نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف معاہدہ ہوگیا، امید ہے ایک بلین ڈالر کی آخری قسط آئندہ ماہ مل جائے گی، آئی ایم ایف کے ساتھ ایک اور پروگرام کے بغیر ہمارا گزارا نہیں، نئے پروگرام کا دورانیہ 2 سے 3سال تک ہوسکتا ہے، نئے پروگرام کے ساتھ ہمیں اصلاحات بھی لے کر آنی ہیں۔ تفصیلات مطابق وزیراعظم شہبازشریف کی زیرصدارت ایس آئی ایف سی کی ایپکس کمیٹی کا اجلاس ہوا، اجلاس سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم شہبازشریف نے کہا کہ پوری قوم کیلئے بڑا پیغام ہے کہ ہم سب یہاں جمع ہیں، ہمارا پنا اپنا منشور اور اسٹریٹجی ہے لیکن پاکستان کی خوشحالی ویکجہتی کیلئے یہاں جمع ہیں، آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور ان کی ٹیم کا انتہائی مشکور ہوں کہ انہوں نے ہماری 16ماہ حکومت میں بھرپور سپورٹ کی ، نگران حکومت میں بھی تعاون کا مظاہرہ مثالی ہے۔
جون 2023 کی بات ہے جب ایس آئی ایف سی معرض وجود میں آیا ، سرمایہ کاری کے حوالے سے پاکستان کے اندر اور پاکستان کے باہر جو مشکلات درپیش تھیں ماضی میں ارباب اختیار حل نہیں کرپاتے تھے تو اسکی کئی وجوہات تھیں۔ پاکستان کو بیرون ملک سے آنے والی سرمایہ کاری کی راہ میں جورکاوٹیں تھیں ان کو دور کیا جائے، سرخ فیتہ جو پاؤں کی زنجیر بن چکا تھا، اسی لئے ایس آئی ایف سی بنایا گیا۔
وزیراعظم شہبازشریف نے کہا کہ 16 ماہ میں جو 13 جماعتی اتحادی حکومت تھی جب پاکستان دیوالیہ ہونے کے بہت قریب جا پہنچا تھا اس وقت ہم سب جماعتوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ سیاست جاتی ہے تو جائے ریاست کو بچانا بہت ضروری ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدہ ہوگیا ہے، امید ہے کہ اگلے مہینے ایک بلین ڈالر سے زائد قسط مل جائے گی، آئی ایم ایف کے ساتھ نئے پروگرام کا دورانیہ 2 سے 3سال تک ہوسکتا ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ ایک اور پروگرام کے بغیر ہمارا گزارا نہیں، ہمیں آئی ایم ایف کا ایک اور پروگرام چاہیئے ہوگا۔
کیا اس سے معاشی استحکام آجائے گا، ایک بہت بڑا سوال ہے۔ نئے آئی ایم ایف پروگرام کے ساتھ ہمیں اصلاحات لے کر آنی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کو ڈیجیٹلائز کریں گے،ہمارا 2023-2024 کا محصولات کا تخمینہ 9 کھرب روپے ہے جبکہ اصل میں محصولات 14ٹریلین روپے تک ہونی چاہئیں، تو 4 کھرب روپیہ ضائع ہورہا ہے، پھر ہمارے کیسزکی مد میں جو رقم ریکور کرنی ہے وہ 2.7 کھرب روپے ہے،میں اگر ایک محتاط اندازہ بھی آپ کی خدمت میں پیش کروں اور آدھی رقم بھی ہم ریکور کر لیں تو ساڑھے 13 سو ارب روپے آپ کے پاس آجائے گا، پھر سالانہ بجلی چوری 500ار ب ہے، اس کے بعد ہم کشکول توڑنے کی طرف چل پڑیں گے۔