پاک افغان کشیدگی: اسٹیک ہولڈرز کے درمیان مذاکرات متوقع، ’سکیورٹی فورسز نے اپنی پوزیشنیں دوبارہ مضبوط کرلیں‘ لڑائی رک گئی، سرحد پر خاموشی ہے، افغان حکام

خبر رساں ایجنسی ”اے ایف پی“ کے مطابق گزشتہ روز پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہونے والی مسلح کشیدگی کے بعد طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ ’صورتحال پرسکون ہے اور لڑائی رک گئی ہے۔‘

پیر (18 مارچ) کو پاکستان کی طرف سے علی الصبح افغانستان کے صوبوں پکتیکا اور خوست صوبوں کے سرحدی علاقوں میں حملے کیے گئے۔

ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق اس کارروائی میں پاکستان نے اُن عسکریت پسندوں کو نشانہ بنایا جو شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں حملے اور لیفٹیننٹ کرنل اور کیپٹن سمیت سات فوجی جوانوں کی شہادت کے ذمہ دار تھے۔

تاہم، پاکستان کی جانب سے کی گئی کارروائی میں ہلاکتوں کی تعداد نہیں بتائی گئی۔

اس حوالے سے طالبان حکام نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کی طرف سے ہونے والی اس بمباری میں آٹھ افغان شہری، جن میں تمام خواتین اور بچے شامل ہیں، مارے گئے۔

جس پر امریکی محکمہ خارجہ نے بھی پاکستان سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی۔

اے ایف پی کے مطابق افغانستان کی وزارت دفاع نے بتایا کہ پاکستانی کارروائی کے بعد اس کی فورسز نے سرحد کے ساتھ پاکستانی فوجی چوکیوں کو ’’بھاری ہتھیاروں“ سے نشانہ بناتے ہوئے جوابی کارروائی کی، جس کے بعد دونوں طرف سے سرحد پار شدید جھڑپیں ہوئیں۔

پاکستان کے سرحدی ضلع کرم میں ایک سینیئر پولیس افسر نے اے ایف پی کو بتایا کہ افغان سکیورٹی فورسز نے علاقے کو مارٹر گولوں سے نشانہ بنایا۔

اس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ ’’اس کے نتیجے میں، تین سکیورٹی پوسٹس اور شہریوں کے پانچ مکانات کو جزوی نقصان پہنچا اور چار سکیورٹی اہلکاروں سمیت نو افراد زخمی ہوئے۔‘

بیان میں مزید کہا گیا کہ، ’آج سرحد پر خاموشی ہے اور سکیورٹی فورسز نے اپنی پوزیشنس دوبارہ مضبوط کر لی ہیں۔‘

دوسری جانب خراب حالات کے باعث پاک افغان خرلاچی بارڈر دوسرے روز بھی بند ہے اور ہر قسم آمد و رفت اور تجارت معطل ہے۔

خرلاچی بارڈر کل صبح سات بجے افغانستان کی جانب سے مارٹر گولے داغے جانے کے بعد بند ہوا تھا۔

کل شام 4 بجے سے لے کر تاحال دونوں اطراف سے کسی قسم کی فائرنگ نہیں ہوئی ہے، دونوں ممالک کے سٹیک ہولڈرز کے درمیان آج مذاکرات متوقع ہیں۔

پولیس کے مطابق کل ہونے والے جھڑپوں میں 4 پاکستانی شہری زخمی ہوئے تھے۔

خیال رہے کہ 2021 میں طالبان حکومت کے اقتدار پر قبضے کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان سرحدی کشیدگی میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔

اسلام آباد نے کابل پر دوبارہ بر سراقتدار آنے والے طالبان کی حکومت اور ٹی ٹی پی کے عسکریت پسند جنگجوؤں کو اپنے ہاں پناہ دینے اور انہیں پاکستانی سرزمین پر بلا امتیاز حملے کرنے کی اجازت دینے کے الزامات عائد کیے۔ جبکہ کابل کی جانب سے تاہم ان الزامات کی تردید کر دی گئی۔

سرحد پر چوکیوں کی تعمیر کے مسئلے پر آئے دن دونوں ممالک کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے اور اکثر امیگریشن کے سلسلے میں پائے جانے والے اختلافات پر سرحدی اور تجارتی گزرگاہیں بند کر دی جاتی ہیں۔

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں