کوئی ملٹری لینڈ نہیں ہوتی اراضی حکومت پاکستان کی ہوتی ہے، چیف جسٹس آپ کی لیز ختم ہو گئی ٹاٹا بائے بائے، چیف جسٹس

سپریم کورٹ میں مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں منال ریسٹورنٹ لیز اور وائلڈ لائف بورڈ کی آئینی درخواستوں پر سماعت ہوئی، دوران کیس سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا ، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایم ای او کا کہنا ہے کہ یہ ملٹری لینڈ ہے جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ کوئی ملٹری لینڈ نہیں ہوتی اراضی حکومت پاکستان کی ہوتی ہے۔

مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں منال ریسٹورنٹ لیز اور وائلڈ لائف بورڈ کی آئینی درخواستوں پر سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے کی، عدالت نے وفاقی حکومت کو نیشنل پارک کی آٹھ ہزار چھ سو ایکٹر اراضی کا اوریجنل ریکارڈ طلب کر لیا۔ سپریم کورٹ نے کہاکہ ملٹری اسٹیٹ آفس کا اعلیٰ افسر ذاتی حیثیت میں آئندہ سماعت پر پیش ہو۔

ونال ریسٹورنٹ کی جانب سے وکیل سلمان اکرم راجہ عدالت میں پیش ہوئے، چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ یہ آر وی ایف کیا ادارہ ہے،سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ پاکستان آرمی کا پراجیکٹ ہے جو فارمز اور ڈیفنس ڈویژن سے متعلق ہے، چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ کیا آئین کے تحت یہ درست بات ہے،کیا کل کو انفنٹری بریگیڈ اس طرح کی درخواست داخل کر سکتی ہے۔

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ ان کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے دیوانی مقدمہ ماتحت عدالت میں زیر سماعت ہے، ہمارا کیس یہ ہے کہ مونال انتظامیہ آر وی ایف اور سی ڈی اے دونوں کو کرایہ دینے کیلئے تیار ہے، چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آپ کو لیز کس نے دی تھی کیا سی ڈی اے نے دی تھی۔

چیف جسٹس نے مونال کے وکیل سلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ آپ کی لیز ختم ہو گئی ٹاٹا بائے بائے،جسٹس عرفان سعادت خان نے کہاکہ آپ ایک طرف کہتے ہیں کہ سی ڈی اے مالک نہیں، دوسری طرف آپ کہتے ہیں آر وی ایف سے لیز قانونی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ آپ اپنی مرضی سے لینڈ لارڈ کو تبدیل نہیں کر سکتے، آپ آر وی ایف کے حق میں ڈگری مانگ رہے ہیں،آپ کہتے ہیں کہ آٹھ ہزار تریسٹھ ایکڑ اراضی 1910 سے ملکیت میں ہے تو ریکارڈ دکھا دیں، ایسے کاغذ کے ٹکڑے پر انحصار کر رہے ہیں جس پر کسی کے دستخط بھی نہیں، نومبر 2016 میں گراس فارم واپس کیا گیا اگر سی ڈی اے متاثر ہوتا تو اسے چیلنج کرتا، آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ مارگلہ نیشنل پارک کو گراس فارم میں منتقل کر دیا۔

جسٹس عرفان سعادت خان نے کہاکہ کیا یہ سی ڈی اے سے آرمی نے ٹیک اوور کر لیا ہے،سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ جنرل باجوہ اس وقت آرمی چیف تھے، چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ آپ کہتے ہیں تو نوٹس دے کر انہیں بلا لیتے ہیں، مونال کے وکیل نے کہاکہ میں تو ایسا نہیں کہوں گا، چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ سی ڈی اے پر تھوڑا پریشر ڈالیں تو یہ چیف جسٹس کو اراضی کا مالک بنا دیں گے۔

چیف جسٹس نے سلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ یہ کامیڈی شو جاری رکھنا چاہتے ہیں تو آپ کی مرضی ہے، وکیل مونال نے کہاکہ میں سنجیدہ بات کر رہا ہوں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ملٹری اسٹیٹ آفس سے کون آیا ہے،کیا آپ اوریجنل ریکارڈ ساتھ لائے ہیں، آئندہ سماعت پر تمام اوریجنل فائلز لیکر آئیں، ملٹری سٹیٹ آفس کے سینئر اہلکار اٹارنی جنرل کو ساتھ لیکر آئیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ ملٹری اسٹیٹ آفس کا جی ایچ کیو سے کیا تعلق ہے، جی ایچ کیو کیسے ملٹری اسٹیٹ آفس کے تابع ہو گیا۔

عدالت نے وفاقی حکومت سے نیشنل پارک کی آٹھ ہزار چھ سو ایکڑ اراضی کا ریکارڈ طلب کر لیا، سپریم کورٹ نے کہاکہ ملٹری اسٹیٹ آفس کا اعلیٰ افسر ذاتی حیثیت میں آئندہ سماعت پر پیش ہو،چیف جسٹس پاکستان نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ جب کوئی طاقتور آجاتا ہے تو آپ کی ہوا نکل جاتی ہے، قانون کی دھجیاں مت اڑائیں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایم ای او کا کہنا ہے کہ یہ ملٹری لینڈ ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ کوئی ملٹری لینڈ نہیں ہوتی اراضی حکومت پاکستان کی ہوتی ہے، سادہ سا سوال پوچھا ہے کہ سی ڈی اے کی ملکیت ہے یا کسی اور کی، سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت 21 مارچ تک ملتوی کر دی۔

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں