چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے آئی جی اسلام آباد اکبر ناصر خان پر شدید برہمی کا اظہار کردیا۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں صحافیوں کو ایف آئی اے نوٹسز اور ہراساں کیے جانے کیخلاف کیس کی سماعت ہورہی ہے جہاں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بنچ سماعت کر رہا ہے، بینچ میں جسٹس عرفان سعادت اور نعیم اختر افغان بھی شامل ہیں، پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ کی جانب سے بیرسٹر صلاح الدین پیش ہوئے جب کہ اٹارنی جنرل پاکستان بھی سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔
دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے آئی جی اسلام آباد پر شدید برہمی کا اظہار کیا اور ریمارکس دیئے کہ آئی جی صاحب آپ آئے کیوں ہیں یہاں؟ کیا آپ اپنا چہرہ دکھانے آئے ہیں؟ ایک کرائم کی ریکارڈنگ موجود ہے ان ملزمان کا سراغ نہیں لگا سکے؟ اٹارنی جنرل صاحب یہ کس قسم کے آئی جی ہیں؟ ہم ان کو عہدے سے ہٹانے کی سفارش کرتے ہیں۔
قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مطیع اللہ جان اغواء، ابصارعالم پر حملے کے مقدمات میں غیر تسلی بخش کارکردگی رہی، چار سال ہو گئے اور آپ کو کتنا وقت چاہیے؟ کیا آپ کو چار صدیاں چاہییں؟ ہر سوال کے جواب میں آپ مائی لارڈ، مائی لارڈ کہنے لگ جاتے ہیں، اگر اب مائی لارڈ کہا تو آپ کو جرمانہ کروں گا، لگتا ہے جی اسلام آباد ملزمان کو تحفظ دینے کی کوشش کر رہے ہیں، اٹارنی جنرل صاحب ان کو ہٹا دیا جانا چاہیئے۔
سماعت میں جب صحافی اسد طور کی گرفتاری کا ذکر ہوا تو اس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اسد طور کے خلاف مقدمہ میں سنگین نوعیت کی دفعات عائد کی گئی ہیں، حساس معلومات سمیت عائد دیگر دفعات کا اطلاق کیسے ہوتا ہے؟ انکوائری نوٹس میں لکھا گیا کہ عدلیہ کے خلاف مہم پر طلب کیا جا رہا ہے لیکن ایف آئی آر میں عدلیہ کے خلاف مہم کا ذکر تک نہیں ہے، یہ تو عدلیہ کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلائی گئی ہے۔