اسلام آباد (شہزاد پراچہ)عثمان ڈار کی والدہ ریحانہ امتیاز ڈار کے الیکشن لڑنے سے سب پاکستان کی نظریں قومی اسمبلی کی حلقہ این اے 71 پر لگی ہوئی ہے کہ کیا مسلم لیگ نواز کے سنئیر رہنما خواجہ اصف اپنی قومی اسمبلی کی سیٹ بچا پائے گے؟۔
روایتی طور پر یہ حلقہ مسلم لیگ نواز کا گڑھ رہا ہے جس کے سبب مسلم لیگ کے لیڈر خواجہ آصف اس حلقہ سے 1997, 2008, 2013 اور 2018 میں الیکشن جیت چکے ہیں، 2018 میں خواجہ اصف نے اس سیٹ سے پاکستان تحریک انصاف کے عثمان ڈار کو صرف 1406 ووٹوں ہرایا تھا خواجہ اصف نے 117,002 ووٹ جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے عثمان ڈار نے 115,596 نے ووٹ لیے تھے۔
مسلم لیگ نواز نے 8 فروری کے الیکشن میں قومی اسمبلی کے حلقہ 71 (سابقہ این اے 73) میں اپنے سنئیر پارٹی رہنما خواجہ آصف کو دوبارہ ٹکٹ جاری کیا ہے اسی حلقہ میں تحریک انصآف کی حمایت یافتہ عثمان ڈار کی والدہ ریحانہ امتیاز آزاد حشیت میں الیکشن لڑ رہی ہیں جبکہ پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر خواجہ اویس الیکشن لڑ رہیں ہیں۔
پاکستان کی فٹ بال برآمدات کے حوالے سے مشہور سیالکوٹ شہر کی 65 فیصد پڑھے لکھے افراد پر مشتمل ہے سیالکوٹ سٹی اور کنٹونمنٹ پر مشتمل اس حلقہ میں ووٹرز کی تعداد 577281 ہے جس میں 305133 مرد اور 272148 خواتین کے ووٹرز ہیں۔
قومی اسمبلی کے اس حلقہ کے نتائج پر پہلے دن سے سوالات اٹھ رہے تھے مگر اکتوبر 2020 میں سابق آرمی چیف اور مختلف پارٹیوں کے پارلیمانی لیڈرز میں انکشاف ہوا کہ خواجہ آصف نے سابق آرمی چیف کو 25جولائی کو ہونے والے الیکشن کی رات فون کرکے مدد طلب کی تھی۔
خواجہ آصف نے اس پر میڈیا کو بتایا تھا کہ الیکشن کی رات جنرل باجوہ کو حلقے میں دھاندلی پر اگاہ کیا جنرل صاحب نے کہا کہ اپ بے فکر ہو جائیں اور صبح معلوم ہوا کہ میں جیت گیا۔
خواجہ آصف سے سیٹ ہارنے کے بعد سابق وزیر اعظم عمران خان نے عثمان ڈار کو اپنی کابینہ میں شامل کرتے ہوئے انہیں یوتھ افیئر کا قلمدان سونپا تھا جس کے بعد عثمان ڈار نے نہ صرف علاقہ میں ترقیاتی کام کرواے جس سے پارٹی کا ووٹ بنک مزید مضبوط ہوا۔
اس کے علاوہ ڈار نے اپنے آپ کو یونین کونسلز اور وارڈ لیول تک متحرک کیا جس کے سبب 9 مئی سے پہلے تک وہ اپنے سیاسی حریف خواجہ آصف کے مقابلہ میں ایک مضبوط امیدوار بن کر سامنے آ گئے تھے۔
سیالکوٹ کے حلقوں کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کے مطابق سابق وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں چلنے والی پی ڈی ایم حکومت کے بعد اگر 9 مئی سے قبل الیکشن ہوتا تو عثمان ڈار اپنے سیاسی حریف خواجہ آصف کو بڑی لیڈ سے شکست دیتے مگر عمران خان کی 9 مئی کو گرفتاری کے بعد ہونے والے احتجاج اور پرتشدد مظاہروں کے صورتحال میں وقتی تبدیلی ہوئی۔
پی ٹی آئی کے سیالکوٹ سے سابق ایم پی اے چودھری اخلاق پارٹی کو خیر اباد کہہ گئے اس کے بعد عثمان ڈار کے ٹی وی انٹرویو نے حلقہ کی عوام میں مایوسی پھیلائی جس میں انہوں نے سیاست سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔
پولیس کے عثمان ڈار کی گھر پر ریڈ میں خواتین بشمول عثمان ڈآر کی والدہ سے بدتمیزی کی ویڈیو کے بعد پریشانی اور تزبزب کا شکار پی ٹی آئی نے نیا جنم دیا اس ویڈیو کے بعد نہ صرف سیالکوٹ بلکہ پورے پاکستان کی عوام نے ڈار براداران کی والدہ سے ہمدردی کا اظہار کیا۔
سونے پَر سُہاگا ریحانہ امتیاز ڈار کی جانب سے اس حلقہ میں الیکشن لڑنے کے اعلان کے بعد صورتحال میں کافی ڈرامائی تبدیلی محسوس کی گئی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق عوامی رائے شماری کے باوجود الیکشن میجنمنٹ ڈے بہت اہم ہے سب سے ضروری پولنگ اسٹیشنز پر پولنگ ایجنٹس کا ہونا بھی لازمی ہے اس حلقہ میں 357 پولنگ اسٹیشنز ہیں اس کے بعد ووٹرز کی ایجوکیشن ہے کہ ووٹ لس طرح پول کرنا ہے اور اخر میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں ووٹرز کو ووٹ کاسٹ کروانا شامل ہیں۔
ابھی تک سوشل اور قومی میڈیا پر ہونے والے عوامی رائے شماری کے مطابق اس حلقہ سے ریحانہ ڈار کی اچھی پوزیشن ہے کیونکہ خاتون ہونے کی وجہ سے وہ ہر گھر میں خواتین تک پہنچ رہی ہیں۔
مگر دوسری جانب خواجہ آصف کو نہ صرف الیکشن لڑنے کا وسیع تجربہ ہے بلکہ ن لیگ کا خاصہ ووٹ بنک بھی موجود ہے اور سب سے اہم کے اس الیکشن میں ان کے مخالفین الزام لگا رہے ہیں کہ سیالکوٹ میں انتطامیہ ان کی مرضی لگائی گئی ہے حال ہی میں نواز شریف اور مریم نواز کے سیالکوٹ جلسہ میں انتطامیہ کی جانب سے انہیں خصوصی پروٹوکول بھی دیا گیا
تجزیہ کاروں کے مطابق اگر امن و امان کی صورتحال بہتر رہتی ہے تو ووٹرز ٹرن اوٹ 2018 کے مقابلہ میں بہتر رہتا ہے تو ریحانہ امتیاز ڈار اچھے مارجن سے الیکشن جیت جائیں گی۔